ہر وہ چیز جو انسان کی طلب سے بڑھ جاے اور اچھائی اور برائی کا فرق ختم کر ڈالے ہوس کہلاتی ہے. خواہ دولت کی ہو، شہرت کی ہو، عزت کی یا سٹیٹس کی.
اللہ کریم نے خود بھی قرآن کریم میں بیان کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱)حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲)
ترجمہ: زیادہ مال زخیرہ کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا ۔ یہاں تک کہ تم قبروں تک جا پہنچے۔
اس سے علم ہوا کہ کثرتِ مال کی حرص، اور فخر کا اظہار کرنا مذموم ہے اور اس میں مبتلا ہو کر آدمی اُخروی سعادتوں سے محروم کو کر رہ جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورہ الحدید کی آیت نمبر 20 میں ارشاد فرماتا ہے.
ترجمۂ : جان لو کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل کود، زینت اور آپس میں فخر اور غرور کرنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر برتری چاہنا ہے ۔ دنیا کی زندگی بلکل ایسے ہی ہے جیسے وہ بارش جس کا اُگایا ہوا سبزہ کسانوں کواچھا لگے پھر وہ سبزہ سوکھ جاتے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (جیسے بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللّٰہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا( بھی ہے ) اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کاسامان ہے۔
اور قرآن کریم لیں ارشاد فرمایا
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ سورۃ منافقون کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرمایا.
ترجمۂ : اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللّٰہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
اور پھر سورۃ التغابن کی آہت نمبر ۱۴-۱۶ میں ارشاد فرمایا
ترجمۂ : اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویاں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں تو ان سے احتیاط رکھو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کر دو اور بخش دو تو بیشک اللّٰہ بڑا بخشنے والا، بہت مہربان ہے ۔تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک (تمہارے لیے) آزمائش ہی ہیں اور اللّٰہ کے پاس بہت بڑا ثواب ہے۔ تو جہاں تک تم سے ہوسکے اللّٰہ سے ڈرو اور سنو اور حکم مانو اور راہِ خدا میں خرچ کرو یہ تمہاری جانوں کے لیے بہتر ہوگا اور جسے اس کے نفس کے لالچی پن سے بچا لیا گیا تو وہی فلاح پانے والے ہیں۔
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کو مزید واضح کر دیا گیا.
حضرت مُطْرَف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا،اس وقت آپ سورہ التَّكَاثُرُ‘‘ کی تلاوت فرما رہے تھے،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: ’’ابنِ آدم کہتا ہے کہ میرا مال،میرا مال،اے ابنِ آدم:تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھا کر فنا کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ کر دیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا۔
ایک اور روایت جو حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، اس میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بندہ کہتا ہے کہ میرا مال،میرا مال، ا س کے لئے تو اس کے مال سے صرف تین چیزیں ہیں ایک جو ا س نے کھا کر فنا کر دیا۔دوسری جو اس نے پہن کر بوسیدہ کر دیا۔تیسری جو کسی کو دے کر(آخرت کے لئے) ذخیرہ کر لیا۔اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ جانے والا ہے اور وہ اس کو لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے
مزید حضرت عمرو بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم !مجھے تمہارے غریب ہو جانے کا ڈر نہیں ہے، مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ دنیا تم پر کشادہ نہ ہو جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر ہوئی تھی،پھر تم اس میں رغبت کر جاؤ جیسے وہ لوگ رغبت کر گئے اور یہ تمہیں ہلاک کر دے جیسے انہیں ہلاک کر دیا۔
مزید حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی روایت ہے، سرکارِ دو عالَم محمدمصطفیٰ رہبردوجہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مال و اَسباب کی کثرت سے مالداری نہیں ہوتی بلکہ اصل مالداری تو دل کا غنی ہونا ہے، خدا کی قسم!مجھے تمہارے بارے میں محتاجی کا خوف نہیں ہے لیکن مجھے تمہارے بارے اس بات کا خوف ہے کہ تم کثرت ِمال کی ہوس میں مبتلا ہو جاؤ گے
ایک روایت حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا دو بھوکے بھیڑیئے جو بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں وہ ان بکریوں کو اس سے زیادہ خراب نہیں کرتے جتنا مال اور عزت کی حرص انسان کے دین کو خراب کر دیتی ہے۔
ان ارشادات و فرامین سے بھرپور آگہی ملتی ہے کہ اپنی طلب کو کنٹرول کرنا کتنا ضروری ہے۔
نفس اور شیطان کے خلاف علم جہاد بلند کیجئیے۔ زندگی کے اصل مقصد کو سمجھئے. ہوس سے بچییے اور اللاہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں حتی الامکان کوشش کریں کی شیطان کی چالوں سے اپنے نفس کی حفاظت کی جاے اور اپنی طلب کو طلب کے درجے سے بڑھنے سے بچایا جائے
تا کہ جب رب العالمین کی رحمت اپنے بندے کو پکارے تو بندے کو اس کی پکار سنائی دے۔ جب رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی صدا بلند ہو تو بندے کا نفس اسے سن کر اپنا قبلہ درست کر سکے۔ اپنے آپ کو رحمان کے اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر قائم رکھنے اور اپنے اندر کے منصف کو زندہ رکھنے کے لیے
نفس کے خلاف جہاد اتنا ہی ضروری ہے جتنا شیطان کے خلاف ضروری ہے۔ یاد رکھیں جس طرح شیطان سے جہاد، رحمن کا راستہ سمجھنے کے لئے ضروری ہے اسی طرح نفس سے جہاد، رحمن کے راستے پر قائم رہنے کے لیے ضروری ہے محفوظ رہیں ہر طلب کو ہوس میں بدلنے سے۔ فیصلہ آپکا
@EngrMuddsairH








