نواب آف کالا باغ تحریر: محمد اسعد لعل

0
73

23 مارچ 1940 میں جب منٹو پارک میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قراردادِپاکستان منظور ہوئی تو اس کے بعد قائداعظم نے اپنے تنظیمی ساتھیوں سے تقریر کرتے ہوا کہا کہ ہمیں لوگوں کو بیدارکرنا ہے،لوگوں میں ایک تحریک پیدا کرنی ہے اور اس کے لیے ہمیں فنڈز چاہیے ہوں گے۔کیوں کے لوگوں تک بات چیت کو پہنچانے کے لیےبہت سارے لوگوں کو مختلف جگہوں پر سفر کرنا پڑے گا،بہت ساری چیزیں لکھنی اور پھر چھپوانی پڑیں گی۔ اس دور میں یہ ایک مشکل کام بھی تھا۔وہ ایک نیا ملک بنانے جا رہے تھےاور اس کے لیے بہت زیادہ فنڈزکی ضرورت تھی۔
تحریک کے جتنے ساتھی وہاں موجود تھے انہوں نے قائداعظم کے سیکرٹری کو چندا جمع کروانا شروع کر دیا۔لوگ چندا جمع کرواتے اور واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے۔ شورقہ کی دوسری صف میں سے ایک لمبے قد کا نوجوان کھڑا ہو ا۔جس نے سر پر لنگی سجائی ہوئی تھی۔اس نوجوان نے رعب دار آواز میں کہا سیکرٹری صاحب جتنا چندا ان سب نے مل کر جمع کروایا ہےاُتنا ہی چندا آپ میری طرف سے جمع کر دیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ ساتھ وہاں بیٹھے تمام شورقہ دنگ رہ گئے۔ قائداعظم نے نواب ممتاز دولتانہ سے پوچھایہ نوجوان کون ہے۔ دولتانہ صاحب نے بتایا کہ یہ ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دولتانہ صاحب سے کہا کہ آپ میری ساتھ والی کرسی چھوڑ دیں تاکہ میں اِنہیں عزت کے طور پر اپنے ساتھ بیٹھاؤں۔
یہ عزت نواب آف کالا باغ کو اس لیے نہیں دی کہ ان کے پاس بہت زیادہ جاگیریں تھیں بلکہ اس لیے دی کہ وہ زیادہ ڈونیٹ کر رہے تھے،زیادہ حصہ لے رہے تھے آزادی کی تحریک میں۔اور اُس وقت برصغیر کے مسلمانوں کے لیے یہ ڈونیشن آکسیجن کا درجہ رکھتی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح یہ اچھی طرح جانتے تھےکہ کس کو کب اور کہا بٹھانا ہے۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ نواب لوگوں کی بڑی بڑی جاگیریں ،ان کی دولت،ان کا دبدبا اوران کے سامنے سلطنت کے لوگوں کےجھکے سر اُن کی پہچان ہوتی ہے۔لیکن نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کی زندگی میں ان کی پہچان ان کی جاگیر نہیں تھی،ان کی نوابی نہیں تھی،ان کا کنٹرول نہیں تھا بلکہ ان کی پہچان اپنی مٹی سے محبت اور ان کے اصول تھے۔
ملک امیر محمد خان سالٹ رینج کے سرخ پہاڑوں کے درمیان بہتے ہوئے شیر دریائے سندھ کی دھاروں کا نواب تھا۔کیوں کہ وہاں سے دریائےسندھ بل کھاتا ہوا گزرتا ہے اور یہیں پہ تو کالا باغ ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔نواب ملک امیر محمد خان 20 جون 1910 میں کالاباغ میں ہی پیدا ہوئے تھے۔نواب صاحب نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ان کا شمار ملک کے سب سے بڑے جاگیر داروں میں ہوتا تھا۔
کالاباغ کو "کالا باغ "اس لیے کہتے ہیں کہ نواب آف کالا باغ نے بہت پہلے ماضی میں شہر کے اندر برگد کا بہت بڑا باغ بنایا تھا۔درخت جب بڑے اور گھنے ہو گئے تو دور سے دیکھنے پرکالے رنگ کے معلوم ہوتے تھے۔اس لیے یہ جگہ آہستہ آہستہ کالا باغ کے نام سے مشہور ہو گئی۔
1956 میں انہوں نےمغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچ گئے۔مغربی پاکستان کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کا نام نواب افتخار حسین تھا۔ وزیراعلیٰ صاحب نواب امیر محمدخان کے علاوہ کسی سے نہیں ملتے تھے۔بلکہ ملنا گوارا ہی نہیں کرتے تھے۔اور وہ چاہتے تھے کہ نواب صاحب کو وزیر بنایا جائے لیکن نواب صاحب نے انکار کر دیا۔پھر صدر سکندر مرزا کی جانب سے انہیں وزارت کی پیشکش ہوئی جس کو انہوں نے ان تاریخی جملوں کے ساتھ رد کیا۔انہوں نے کہا "میرے لیے یہ ممکن نہیں ٹکے ٹکے کے ممبران کے سامنےجواب دوں اور بات بات پر جنابِ سپیکر، جنابِ سپیکرکی گردان کروں۔” یہ ان کی شخصیت کا ایک رنگ تھا۔
پھر ایوب خان صاحب نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی ۔جنرل ایوب خان نے نواب صاحب کی تمام شرائط مان لیں ، جیسا کہ آپ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوں گے،آپ سے کوئی سوال نہیں کر سکے گا،آپ کو کسی کے آگے جھکنا نہیں پڑے گا اور آپ خود مختیار ہوں گے۔ انہیں مغربی پاکستان کے گورنر کا عہدہ دیا گیا اور انہوں نے اسے قبول کر لیا۔
نواب امیر محمد خان کا طرزِحکمرانی ان کے قردار کو آپ کے سامنے پیش کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔نواب صاحب کی حکمرانی آنے والے حکمرانوں کے لیے مثال بن گئی۔آج بھی عام آدمی ان کی طرزِحکمرانی کی مثال دیتا ہے۔جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آج جو مہنگائی ہے اگر نواب امیر محمد صاحب ہوتے تو یہ نہ ہوتا۔ان جیسی اقتدار کی طاقت نہ پہلے کسی نے استعمال کی نہ ان کے بعد کوئی ایسی ہمت کر سکا۔منصب پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ ان کے خاندان سے کوئی شخص بھی گورنر ہاؤس میں داخل نہیں ہو سکتا۔
جب وہ اہم تعیناتی کے لیے انٹرویوکرتے تو خاندانی پسِ منظر تک پتہ کرتے۔ان سے سوال کیا گیا کہ نواب صاحب اتنی احتیاط کیوں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ تو گھوڑا اور کتا خریدتے وقت اس کی نسل دیکھتے ہیں ، یہ تو میرے ملک کا معاملہ ہے۔
حکمرانی کا یہ عالم تھا کہ ان کے دور میں ایک پانچ سال کا بچہ اغوا ہو گیا۔نواب صاحب نے ایس ایس پی کو بلوایا اور 24 گھنٹے کا ٹائم دیا کہ بچہ ڈھونڈ کے لاؤ، مگر پولیس ناکام ہو گئی۔نواب نے اگلے دن "اے ایس پی،ایس پی اورایس ایس پی” تینوں کے بیٹے اُٹھوائے اور کالا باغ بھجوا دیے۔اور علان کروا دیا کہ جب تک اغوا ہونے والا بچہ نہیں مل جاتا ان آفسران کے بچے بھی ان کے گھر نہیں آئیں گے۔یہ فارمولا کا م کر گیا اور اسی دن ہی بچے کو بازیاب کروا لیا گیا۔اس طرح کا انصاف انہوں نے کیااور یہی وجہ تھی کہ وہ کہتے تھے میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گا۔
جب 1965 میں پاکستان کی بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی تو نواب صاحب نے تمام تاجروں کو طلب کیا اور کہا کہ جنگ کا دور ہے میں تم لوگوں کو بتا رہا ہوں کسی نے ذخیرہ اندوزی کی یا کسی نے سامان کو مہنگا بیچنے کی کوشش کی تو پھر میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔جنگ کے دوران انہیں خبر ملی کے ایک تاجر زیادہ پیسوں پر گندم فروخت کر رہا ہےتو نواب صاحب بنا سکیورٹی کے اس تاجر کے پاس پہنچ گے اور کہا کہ "تم یہ سمجھتے ہو کہ امیر محمدجنگ میں مصروف ہے اور تم من مانی کر لو گے۔میری مونچھ کو تاؤ آنے سے پہلے نرخ اپنی جگہ پر لے آؤ ورنہ ایسی سزا دوں گاکہ رہتی دنیا یاد کرے گی۔” اور اس کے بعد پورے مغربی پاکستان میں ان کے دور میں کوئی ایک شکایت بھی نہیں آئی کہ کوئی شخص کسی چیز کو زیادہ قیمت پر بیچ رہا ہے یا ذخیرہ اندوزی کر رہا ہے۔
نواب صاحب طبعی موت نہیں مرے تھے۔یہ ایک الگ حقیقت ہے جس پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ نواب صاحب ایک قیمتی آدمی تھے۔ نواب صاحب کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔کالا باغ نواب آف کالاباغ کی وجہ سے مشہور ہے اور نواب آف کالا باغ کا درجہ ملک امیر محمد خان کی وجہ سے مشہور ہے۔اور ملک امیر محمد خان اپنی جاگیر کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی گورننس کی وجہ سے مشہور ہیں۔ لوگ انہیں یاد رکھیں گے۔
@iamAsadLal
twitter.com/iamAsadLal

Leave a reply