عظیم لیڈر کی دو نشانیاں ہوتی ہیں اس کا وہ مخصوص نظریہ جو محض وطن کیلئے ہو اور دوسرا اس نظریہ کو ہر گلی کوچے میں پہنچانے کا ہنر بھی رکھتا ہو۔ جب آپ نے یہ پڑھا تو آپکو اسکو سمجھنے کیلئے تھوڑا سا وقت چاہیے ہوگا۔ اور میں بات کرنے جارہا ہوں صرف اور صرف پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان کی۔ عمران خان سے پاکستان کی قوم کیوں متاثر ہوئی، نوازشریف، زرداری سب اس سیاست کے پرانی پاپی ہیں، ان پر لوگ اتنا کیوں نہیں مرتے۔ اس کی خاص وجوہات ہیں، عمران خان کی ساری زندگی محنت اور جدوجہد میں گزری، زندگی میں بہت سے چیلنجز سے عمران خان اکیلا لڑا، کرکٹ میں پاکستان کے لیے کام کیا، 1992 کا ورلڈکپ جیتا، پھر شوکت خانم کینسر ہسپتال کھولا، پھر پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ان سب مراحل میں میرے کپتان کو بہت سے لوگوں کی باتوں کو برداشت کرنا پڑا، مگر ہار نہیں مانی، کپتان ڈٹا رہا۔ عمران خان 23 پہلے سے ہی پاکستان کی بربادی، ان ایشوز پر بات کررہا تھا جن پر آج پوری قوم پریشان ہے، بین الاقوامی مداخلت، امریکہ کےزیراثر پاکستان بکتا رہا، عمران خان کھل کر کھڑا رہا، مگر ہار نہیں مانی۔ عمران خان کی سیاسی مقبولیت 2013 میں عروج پر تھی لیکن کسی کو بھی کپتان کی جیت کا یقین نہیں تھا لیکن کپتان ایک بڑا کھلاڑی بن کر سامنے آیا۔ 2018 کے الیکشن میں عمران خان نے جان کی بازی لگائی اور سخت محنت کی اور وہ اقتدار کے ایوان میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ آج انھیں وزیراعظم بنے 3 سال ہوچکے ہیں۔ اور عمران خان کو انھی چیلنجز کا سامنا ہے جن کا ذکر وہ 23 سال پہلے کرتے رہے، امریکہ آج پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کی مدد نہ کی، افغان مہاجرین کو قبول نہ کیا، سی پیک کونہ روکا، تو امریکہ پاکستان کے خلاف ایک نئے محاذ سے سامنے آئے گا۔ کپتان آج بھی ڈٹا ہوا صرف اس وطن کی خاطر کہ میں پاکستان کاسودا نہیں کرونگا۔ عمران خان امریکہ کو نو مور کہتے چلے آرہے ہیں اور اپنی جان اور اقتدار کوخطرے میں ڈال رہے ہیں نگر اس قوم کا سودا نہیں کررہے۔ اس سے پہلے وزرائے اعظم صرف چند ٹکوں کی خاطر امریکہ کے سامنے ڈھیر ہوجاتے تھے اور آج بھی وہی شخصیات عمران خان کو کہہ رہی ہیں کہ وہ بھی اسی حمام میں آجائے لیکن یہ خان کی سیاسی موت ہوگی اور اس سے بڑھ کر ان کا نظریہ دفن ہوجائے گا کہ نہ عمران خان کسی کے سامنے جھکا ہے اور نہ وہ اپنی قوم کو کسی کے سامنے جھکنے دے گا۔ آپ اسکی مثال ایسے لے لین کہ عمران خان اور ایک لوہے کی دیوار، عمران خان اس دیوار کو ٹکر مار رہے ہیں اور وہ اگر عمران خان گرانے میں کامیاب ہوگئے جو کہ آخری مراحل میں ہے تو پاکستان کی تقدیر بدلنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی نے مودھی کو ایک رپورٹ پیش کی کہ اگر سال 2021 میں پاکستان کو نہ روکا گیا تو پھر پاکستان کو روکنا مشکل نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ اسی ضمن میں دشمن افغانستان میں پاکستان کی ریاست، پاک فوج اور عمران خان کے خلاف گھناؤنا پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ کسی صورت عمران خان سرنڈر کردے لیکن میرا کپتان ڈٹا ہوا ہے۔ تو عمران خان کی ساری زندگی چیلنجز میں گزری ہے اسی ہارنا بھی آتا ہے اور ہار کر کھڑا ہونا بھی آتا ہے۔ تو اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے عمران اپنے اقتدار کو چھوڑ سکتا ہے لیکن اس ملک کا سودا نہیں کرسکتا۔
اس سے ہمیں ایک سبق حاصل ہوتا ہے، کچھ بھی بغیر محنت حاصل نہیں ہوسکتا، انسان دل و نیت سے کوشش کرتا ہے اور کامیابی اللہ دیتا ہے۔ اورخوف سے لڑنے کا جذبہ، سچ اور حق کیلئے کھڑے رہنے، ہر بار گرنے کے بعد اپنے آپ کو اگلے مقابلے کے لیے تیار رکھنا اور ہمیشہ بڑا خواب دیکھنا اور اللہ پر کامل یقین کبھی بھی انسان کو ناکام نہیں کرتا اور وہ شخص کامیاب ہوتا ہے۔
@RanaUzairSpeaks








