حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی براہراست تعلیم و تربیت اور عملی رہنمائی سے جو معاشرہ وجود میں آیا تھا اس کا ہر فرد جانتا تھا کہ اسلام کے احکام اور اس کی روح کے مطابق کسی قسم کا نظام حکومت بنانا چاہیے۔اگرچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی جانشینی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا،لیکن مسلم معاشرے کے لوگوں نے خود یہ جان لیا کہ اسلام ایک شوُروی خلافت کا تقاضہ کرتا ہے۔اس لیے وہاں نہ کسی خاندانی بادشاہی کی بنا ڈالی گئی ،نا کوئی شخص طاقت استعمال کر کے برسراقتدار آیا نا آپ کسی نے خلافت حاصل کرنے کے لئے خود کوئی کوشش کی بلکے یکے بعد دیگرے چار اصحاب کو لوگ اپنی آزاد مرضی سے خلیفہ بنا کے چلے گئے۔اس خلافت کو امت نے خلافت راشدہ قرار دیا ہے۔اس سے خود بہ خود یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں خلافت کا صحیح طرز یہی ہے۔
انتخابی خلافت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے لیے حضرت ابوبکرؓ کو حضرت عمرؓ نے تجویز کیا۔اور مدینے کے تمام لوگوں نے کسی دباؤ یا لالچ کے بغیر خود اپنی رضاورغبت سے انہیں پسند کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت لی۔حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی وفات کے وقت حضرت عمرؓ کے حق میں وصیت لکھوائی اور پھر مسجد نبوی میں لوگوں کو جمع کرکے کہا:
"کیا تم اس شخص پر راضی ہوں جس سے میں اپنا جانشین بنا رہا ہوں ؟خدا کی قسم میں نے رائے قائم کرنے کے لیے اپنے ذہن پر زور ڈالنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کو نہیں بلکہ عمر بن الخطاب کو جانشین مقرر کیا ہے،لہذا تم ان کی سنو اور اطاعت کرو”
اس پر لوگوں نے کہا "ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے”
حضرت عمرؓ کی زندگی کے آخری سال حج کے موقع پر ایک شخص نے کہا کہ "اگر عمرؓ کا انتقال ہوا تو فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا”کیونکہ ابوبکرؓ کی بیت بھی تو اچانک ہی ہوئی تھی اور آخر وہ کامیاب ہوگئی حضرت عمر ؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے کہا میں اس معاملے پر ایک تقریر کروں گا اور "عوام کو ان لوگوں سے خبردار کر دونگا جو ان کے معاملات پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے ارادہ کر رہے ہے” چناچہ مدینے پہنچ کر انہوں نے اپنی پہلی تقریری میں اس قصے کا ذکر کیا اور بڑی تفصیل کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ کی سرگز بیان کرکے یہ بتایا کہ اس وقت محصوص خالات تھے جن میں اچانک حضرت ابوبکر ؓ کا نام تجویز کر کے میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔اس سلسلے میں انہوں نے فرمایا "اگر میں ایسا نہ کرتا اور خلافت کا کیے بغیر ہم لوگ مجلس سے اٹھ جاتے تو اندیشہ تھا کے راتوں رات لوگ کہیں کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں اور ہمارے لئے اس پر راضی ہونا بھی مشکل ہو اور بدلنا بھی مشکل ۔یہ فعل اگر کامیاب ہوا تو اسے آئندہ کے لئے نظیر نہیں بنایا جا سکتا تم میں ابوبکر ؓ جیسی بلند و بالا اور مقبول شخصیت کا آدمی اور کون ہے۔اب اگر کوئی شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے گا گا تو وہ اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی دونوں اپنے آپ کو قتل کے لئے پیش کریں گے
اپنے تشریح کردہ اسی قاعدے کے مطابق حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کے خلافت کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک انتخابی مجلس مقرر کی اور فرمایا:
"جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی امیر بننے کی کوشش کرے اسے قتل کر دو ”
اس کے ساتھ انھوں نے اپنے بیٹے کو خلافت کے استحقاق سے صاف الفاظ میں مستثنی کر دیا تاکہ کے خلافت ایک موروثی منصب نا بن جائے ۔یہ انتخابی مجلس ان چھ اشخاص پر مشتمل تھی جو حضرت عمرؓ کے نزدیک قوم میں سب سے زیادہ بااثر اور مقبول عام تھے ۔
اس مجلس نے آخر کار اپنے ایک رکن عبدالرحمنؓ بن عوف خلیفہ تجویز کرنے کا اختیار دے دیا۔انہوں نے عام لوگوں میں چل پھر کر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ عوام کا رحجان زیادہ تر کس شخص کی طرف ہے ۔حج سے واپس گزرتے ہوئے قافلوں سے بھی دریافت کیا۔اور اس استصواب عام سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اکثر لوگ حضرت عثمانؓ کے حق میں ہیں ۔اسی بنیاد پر حضرت عثمانؓ خلافت کے لیے منتخب کیے گئے اور مجمع عام میں ان کی بیعت ہوئی ۔حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو انہوں نے کہا "تمہیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے یہ تو اہل شوریٰ اور اہل بدر کے کرنے کا کام ہے جس کو اہل شوریٰ اور اہل بدر خلیفہ بنانا چاہیں گے وہی خلیفہ ہوگا پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے ۔طبری کی روایات میں حضرت علیؓ کے الفاظ یہ ہیں
"میری بیت خفیہ طریقہ سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہی ہونی چاہیے۔حضرت علی ؓ کی وفات کے وقت لوگوں نے پوچھا کہ ہم آپ کے صاحبزادے حضرت حسن کے ہاتھ پر بیعت کر لیں ؟تو آپ نے جواب میں کہا”میں نا تم کو اس کا حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو ایک شخص میں عین اس وقت جب کہ آپ اپنے صاحبزادوں کو آخری وصیت کر رہے تھے عرض کیا کہ امیر المومنین آپ اپنا وسیہد کیوں نہیں مقرر کر دیتے۔
جواب میں فرمایا "میں مسلمانوں کو اسی حالت میں چھوڑ دوں گا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چھوڑا تھا”
ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت کے متعلق خلفائے راشدین اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا متفق علیہ تصوریہ تھا کے یہ ایک انتخابی منصب ہے جسے مسلمانوں کے باہمی مشورے اور ان کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہونا چاہیے۔موروثی یا طاقت سے برسراقتدار آنے والی عمارت ان کی رائے میں خلافت نہیں بلکہ بادشاہی تھی ۔صحابہ کرام ؓ خلافت اور بادشاہ کے فرق کا جو صاف اور واضح تصور رکھتے تھے اسے حضرت ابو موسی اشعریٰؓ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
امارت (یعنی خلافت) وہ ہے جسے قائم کرنے میں مشورہ کیا گیا ہو۔اور بادشاہی وہ ہے جسں پر تلوار کے زور سے غلبہ حاصل کیا گیا ہو۔
@zeeshanwaheed43

Shares: