14اگست اور قائد کی باتیں تحریر: یاسر خان بلوچ

0
81

ایک اور یوم آزادی منایا جا رہا ہے جس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم نے آزادی حاصل کی۔ہم نے دو قوموں سے آزادی حاصل کی ایک انگریز اور دوسرا ہندو سامراج سے۔ جبکہ ہمارے ہمسائے نے صرف ایک سے آزادی حاصل کی اور وہ تھا برطانیہ۔
پاکستان بننے کا خواب جو شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے دیکھا وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں اور اگست کی 14 تاریخ کو قائد اعظم نے حقیقت بنا کر پورا کیا۔ پاکستان قائد کی انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد کے بعد دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
قائد اعظم ایک با اصول اور سچے انسان تھے مسلمانوں کے عظیم لیڈر اور رہنما تھے۔ ایک ایسا سچا انسان جس نے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دی۔علامہ اقبال کا جو خواب تھا قائد کی محنت اور ذہانت کے بعد مسلمانوں کو آزاد اسلامی ریاست کی صورت میں ملا۔
14اگست ہماری آزادی کا دن ہے اس دن تنقید کرنا معاشرتی آداب کے خلاف ہے. لیکن آزادی کا دن ضرور ہے مگر کس آزادی کا؟ آزادی ایک قوم کی جو تھی؟ آزادی ایک قوم کی جو ہے؟ آج ہم بحثیت ایک قوم اپنی کارگردگی کا جائزہ لیں تو بڑی افسوسناک حقیقت سامنے آئے گی۔ کہ ہم نے اس طویل عرصے میں اپنے ملک کو چلانے کے اہل ابھی تک نہیں ہوئے جس کا خواب ہمارے قائد نے دیکھا تھا۔
بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح نے جمہوری اقدار، آئین کی پاسداری اور برابری کے علاوہ انسانی حقوق کی تکریم پر مبنی معاشرے پر قائم ہونے کا خواب دیکھا تھا۔
قائد اعظم نے 2مارچ 1940 کو ایم ایس ایف کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ”کسی قوم کا ایک ملک کو چلانے کیلئے تین بڑے بڑے ستونوں کی ضرورت ہے۔ تعلیم، معاشی طور پر مستحکم ہونا اور بیرونی جارحیت کے خلاف ہر وقت تیار رہنا یعنی دفاعی لحاظ سے مضبوط ہونا۔
قائد اعظم کے مطابق کسی ملک کو چلانے کیلئے پہلی شرط تعلیم ہے جس میں بدقسمتی سے آج تک ہم نے وہ ترقی حاصل نہیں کی جسکا خواب ایک زمانے میں دیکھا گیا تھا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم پر دوسرے معاملات کو ترجیح دی۔ اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر کم سے کم خرچ کرنے کی کوشش کی۔ جسکی وجہ سے ہماری شرح خواندگی پچاس سے ساٹھ کے درمیان میں اٹکی ہوئی رہتی ہے۔ جبکہ ہمارے خطے کے دوسرے ممالک ہم سے بہت آگے ہیں جس میں سری لنکا اور ایران سب سے بہتر ہیں۔ ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنے پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دینی چاہیے تھی۔ اس شعبے میں ناکامی کی اصل وجہ اور بنیادی وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں طالب علم اور معلم دونوں کیلئے سہولیاتوں کی شدید قلت ہے۔ جس کی وجہ سے نہ کوئی دل لگا کر پڑھتا ہے اور نہ کوئی اپنےدل سے فروغ تعلیم کیلئے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اور آج تک پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی کو یہی نعرہ لگاتے سنتے آئے ہیں کہ ہم تعلیم پر اپنی پوری توجہ دیں گے بعد ازاں حکومت میں آتے ہی ان کو یہ شعبہ نقصان لگنے لگتا ہے کیونکہ اسکی مالی انکم زیرو ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 30اکتوبر 1948 کو لاہور میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” تعلیم ہماری قوم کیلئے زندگی اور موت والا مسلئہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اگر آپ نے خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کیا تو خدا نخواستہ ہم مٹ نہ جائیں۔ اپنی غفلت سے ہم نے قائد کی اس پیش گوئی کو سچ ثابت کر دیکھایا ہے۔
اگر بات معاشی استحکام کی کاروبار، تجارت اور صنعت کے میدان میں کی جائے تو یہ بڑی پریشان کن ہے۔ یہاں کوئی اطمینان کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکتا کیونکہ یہاں انتہا پسندی، بے یقین سیاسی صورتحال اور دہشت گردی نے سب کو پریشان کیا ہوا ہے۔ اور تجارت کی صورتحال یہ ہے کہ ہم آزادی سے لے کر اب تک ہماری درآمدات زیادہ ہیں اور برآمدات بلکل کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر یہ معاملہ بھی ذرمبادلہ پر بوجھ ڈالتا ہے اور یہ اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی جب تک ہم درآمدات اور برآمدات میں توازن نہ قائم کر لیں۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ پر 1948 میں قائد اعظم نے فرمایا کہ ” ہمارے دشمنوں نے پاکستان کو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی انہوں نے سمجھا کہ پاکستان اپنی معیشت کو قابو نہیں کر سکے گا اور جلد ہی دیوالیہ ہو جائے گا۔ وہ جو تلوار سے حاصل نہ کر سکے وہ ہمارے تباہ شدہ مالی حالات سے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ مگر اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا پہلا بجٹ ہی فاضل بجٹ رہا۔ اور دشمنوں کو زبردست مایوسی اٹھانا پڑی۔ آج جو پاکستان مالی مشکلات کا شکار ہے اسکی بڑی وجہ ہم نے اپنے پاؤں چادر سے باہر پھیلا لیے ہیں ہمیں اپنی چادر کے سائز کو بڑا کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ساتھ اپنے پاؤں بھی سمیٹنے چاہیے اور سادگی اپنائی جائے۔جیسے ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے کہا تھا اب اسے عملی طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ تعلیم اور تجارت کے برعکس ہم نے دفاعی لحاظ سے کافی ترقی کی ہے۔ پاکستان کی فوج ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہے اور ہر نوعیت میں خود کا دفاع کرنے کے اہل ہے ہماری فوج ایٹمی اسلحے سے لیس ہے جس میں دشمن ہمارے ملک کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔
23جنوری 1948 کو قائد اعظم نے پاکستان نیوی کو اپنے خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کتنا ہی مظبوط نہ ہو اپنے وطن کے دفاع کی بنیادی ذمہ داری ہماری ہے۔
یوں غالباً یہ واحد ادارہ جس میں ہم قائد اعظم کے خواب کے مطابق پورے اترے۔

Leave a reply