حالات حاضرہ اور ڈاکٹر ساجد رحیم صاحب کی شاعری تحریر: مجاہد حسین۔

0
80

خبر: وزیراعظم کا تین سالہ حکومتی کارکردگی عوام کے سامنے رکھنے کا فیصلہ۔

تبصرہ: جناب وزیراعظم! عام عوام کیا جانے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ کیا ہوتا ہے؟
بھولے لوگوں کا کیا معلوم ٹریڈ ڈیفیسٹ کا؟
فارن ریزرو کس جن کا نام ہے ان کی بلا سے۔
عوام کو صرف یہ بتا دیں کہ روز مرہ استعمال کی اشیاء جیسے گھی، چینی، آٹا، گیس، بجلی اور راشن میں موجود دیگر اشیا کی قیمتوں میں کب "منفی تبدیلی” آئے گی؟

خبر: نوجوانوں کی ذین سازی کرنی چاہیئے۔ مریم صفدر
تبصرہ: کسی بھی شخص میں جو کہ جھوٹ بولتا ہو، جعل ساز ہو، عدالتوں میں مجرم ثابت ہو چکا ہو اور ضمانتوں پہ گھوم رہا ہو، اسے یہ بات کرتے وقت بہت ہمت کی ضرورت ہے۔ اس سے ظاہر ہوا مریم بی بی بہت ہمت والی ہیں۔

خبر: افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ افغان طالبان
تبصرہ: حضور، عالی جناب، محترم، عزیزم! بس آپ اپنے لوگوں کو سنبھال کے رکھیں باقی پاکستان دیکھ لے گا۔ ذہن میں رہے ہم آپ کی ایک شاخ کے خلاف پہلے ہی رد الفساد کر چکے ہیں، ہمیں وہ دہرانے کا موقع نہ دیجئے گا بس۔

خبر: اشرف غنی افغانستان سے جاتے ہوئے پیسوں سے بھرے بیگ بھی ساتھ لے گیا۔ افغان و بین الاقوامی میڈیا
تبصرہ: اس خبر سے یاد آیا کہ پاکستان سے ایک حکمران 1999 میں جدہ بھاگا تھا تو اس کے سامان میں کئی بیگ ایسے تھے جن میں مبینہ طور پاکستانی عوام کے خون پسینے کی رقم تھی جو ٹیکس یا پھر کک بیکس کی مد میں جوڑی گئی تھی، اور چند سال پہلے سندھ میں ایک خاتوں جس کا سندھ کی ایک سیاسی جماعت سے "قریبی تعلق” تھا، ائیر پورٹ سے ڈالروں سے بھرے بیگ کے ساتھ دھر لی گئی تھی۔ کہانی ملتی جلتی ہے ان حکمرانوں کی۔

خبر: لاہور واقعہ پاکستان کے "سارے مردوں” کی ذہنیت کا عکاس ہے۔ مشہور ٹی وی اینکر
تبصرہ: لاہور میں ہونے والا واقعہ یقیناً بہت برا تھا، اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا لیکن کیا ہمیں سکے کا ایک رخ دیکھ کے اپنا فیصلہ سنا دینا چاہیئے؟
چکیں اس کا پس منظر دیکھتے ہیں۔
یوم آزادی سے چبد دن پہلے موصوفہ ٹک ٹاک "سٹار” اپنے "چاہنے والوں” کو بتاتی ہیں کہ مینار پاکستان میں ملاقات ہوگی۔ یاد رہے لاہور کے اس علاقے میں آوارہ گرد اور گھروں سے بھاگے ہوئے نوجوان عموماً اکثریت میں پائے جاتے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی سب لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ موصوفہ اپنے چند "دوستوں” کے ساتھ وہاں پہنچتی ہیں۔ اتنی زیادہ تعداد دیکھ کے ان کے ساتھ تصویریں بنوائی جاتی ہیں اور ایک دوسرے کو اشارے کئے جاتے ہیں۔ من چلی عوام خاتون کی طرف سے "رسپانس” ملتے ہیں اس کے پاس لپک پڑتے ہیں اور پھر اگلے مناظر ان بیان ایبل ہیں۔ اکیلی لڑکی اتنے سارے "فالورز” میں پھنس کے رہ جاتی ہے اور جس کا جہاں ہاتھ لگا اس نے حسب توفیق اس لڑکی کے جسم پہ اپنے درندہ صفت ہاتھ صاف کئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل ذمہ دار کون ہے؟
وہ لڑکے جو موصوفہ کی دوعت پہ وہاں موجود تھے؟
وہ ٹک ٹاک پہ رقص دکھا دکھا کے مشہور ہونے لڑکی جو چست لباس پہن کے وہاں آ دھمکی اور یہ سمجھتی رہی کہ میں سٹار بن چکی ہوں اور مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا؟
یا ان دونوں جماعتوں کے والدین جنہوں نے اپنے بیٹوں کو یہ نہیں سکھایا کہ دوسرے گھر کی عورتیں بھی کسی کی ماں بہن بیٹیاں ہوتی ہیں، جا جنہوں نے اپنی بچیوں کو یہ نہیں سمجھایا کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں پہ مادر پدر آزادی نہیں ہے۔ خود کو ایسے بازار میں پیش کیا جائے گا تو یہاں ہوس کے پجاری آپ کے جسم کا ایک ایک حصہ نوچ کھائیں گے؟
یا بطور معاشرہ ہم اخلاقیات میں اتنے گر چکے ہیں کہ ہمیں اب اچھائی اور برائی میں کوئی فرق بھی نظر نہیں آتا۔
فیصلہ میں پاکستان کے غیور عوام پہ چھوڑتا ہوں۔

اب ڈاکٹر ساجد رحیم صاحب کی غزل:

‏تو کیا چپ چاپ اجڑنا چاہیئے تھا
ہمیں قسمت سے لڑنا چاہیئے تھا

پرندے اس طرح رکتے نہ رکتے
شجر کو پاؤں پڑنا چاہیئے تھا

مجھے کچھ دیر ہونی چاہیئے تھی
تمہیں مجھ سے جھگڑنا چاہیئے تھا

‏فلک روتا گلے لگ کر زمیں کے
ہمیں ایسے بچھڑنا چاہیئے تھا

یہ شجرے سے بغاوت ہے شجر کی
اسے پت جھڑ میں جھڑنا چاہیئے تھا

چھڑا کر ہاتھ جاتے بے وفا کا
گریباں تو پکڑنا چاہیئے تھا

ہمیں کب راس ہے خوش باش رہنا
کہانی کو بگڑنا چاہیئے تھا

اور آخر میں ایک مختصر نظم:

‏▪︎ عشق ▪︎
درد سہنے والوں کا
درد دینے والوں سے
جو اٹوٹ بندھن ہے
اس کو عشق کہتے ہیں

@Being_Faani

Leave a reply