"آپ کہیے کہ آؤ میں تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن ( یعنی جن کی مخالفت ) کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ۔ ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالٰی نے حرام کر دیا ہے اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو ۔”
سورة الأنعام 151
گزشتہ چند روز میں دو واقعات ایسے ہوئے جنہوں نے ہمارے خاندانی معاشرتی نظام بارے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ پہلا واقعہ ایک ایلیٹ کلاس کی نوجوان لڑکی جو اپنے بوائے فرینڈ کے گھر پر
سربریدہ پائی گئ مذکورہ واقعہ کا فوری نوٹس لیا وزیر اعظم عمران خان نے آئی جی اسلام آباد کو طلب کر کے خود ہدایات جاری کیں ملزم گرفتار ہوا اور اب زیرتفتیش نے ۔ اس بارے کوئی ابہام اور دو رائے نہیں ہے کہ مجرم کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے ۔ اب اس واقعے کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ والدین نے اپنی بچی کو اتنی آزادی کیوں دی کے وہ ایک غیر محرم کے ساتھ انتہائی میں وقت گزارے اس چیز کی اجازت نہ تو ہمارا معاشرہ دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا مذہب ۔ اس پر جب سینئر صحافی عمران ریاض نے یہی بات کی کہ نور مقدم کے ساتھ ظلم ہوا اس کے قاتل کو کڑی سزا دی جائے لیکن اس میں قصور والدین کا بھی ہے کہ کیوں اپنی بیٹی کی تربیت نہیں کہ ہمارا معاشرہ نامحرم کے ساتھ وقت گزارنے کی اجازت نہیں دیتا یہ غلط ہے عمران ریاض کا اتنا کہنا ہی تھا کہ خونی لبرل نے ان پر ہر جانب سے ہدف تنقید بنا لیا۔دوسرا واقعہ اقبال پارک لاہور میں چودہ اگست جشن آزادی والے روز سامنے آیا واقعہ کے دو روز گزرنے کہ بعد سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوتی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مردوں کا بےقابو ہجوم کہ نوجوان لڑکی سے دست درازی کر رہا ہے۔ انتہائی شرمناک اور ناقابل معافی جرم ہے ملوث افراد کو نشانہ عبرت بنایا جائے پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار نے نوٹس لیا مقدمہ درج ہوا متعلقہ ڈپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کی اور پولیس کے اعلی آفیسرز کو غفلت برتنے پر عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے مزید جدید ذرائع سے پولیس اور نادرا حکام کی ملزموں کی شناخت کے بعد گرفتاریاں جاری ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذکورہ لڑکی ٹک ٹاکر ہے اور اس نے اپنے ساتھی لڑکے سے مل کر لوگوں کو چودہ اگست والے روز مینار پاکستان آنے کی دعوت دی کہ ہم کچھ خاص کرنے جا رہے ہیں اور عینی شاہدین کے مطابق پہلے وہاں پر فلائنگ کسز کا تبادلہ بھی ہوا۔ ان حالات میں نوجوانوں لڑکوں اور مردوں کو موقع خود فراہم کیا گیا۔لیکن اس سب کے باوجود اس میں کوئی اگر مگر لیکن نہیں ہجوم کو کوئی حق نہیں کہ خاتون سے دست درازی پر اتر آئے مذکورہ بالا دونوں واقعات نے سوسائٹی کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا دونوں طبقات ان واقعات کی شدید مذمت تو کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ ان دالخراش واقعات کے محرکات پر بھی غور کیا جائے کہ کیوں یہ واقعات پیش آئے کچھ لوگ اس کیوں کو "متاثرہ کو مورد الزام ” ٹھہرانا کہ رہے ہیں اور سوال کرنے والوں کے لتھے لے رہے ہیں ۔
گذشتہ رات ایک نیوز کاسٹر سے صحافی بننے والی خاتون نے نئ بحث چھیڑ دی کہ ماں باپ اپنے لڑکوں کو” Consent” کے بارے بتائیں کہ رضامندی کے تحت جو چاہیں وہ صنف مخالف کے ساتھ کر سکتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور اسلام نے زنا بالجبر اور زنا بالرضا دونوں کو حرام قرار دیا ہے ۔کبھی بغیر نکاح کے اکٹھے رہنے اور تعلقات رکھنے بارے بات کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ سامنا آ چکا ہے جو اپنے آپ کو لبرل کہتا ہے لیکن حقیقت میں وہ خونی اور متشدد لبرل بن چکے ہیں جو اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کی رائے کو سننے کے بھی روادار نہیں ہیں ۔
پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا یہاں پر اسلام نے آباد رہنا ہے اس لئے جو بھی ہماری معاشرتی اقدار کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا عوام اس کا محاسبہ بھی کریں گے اور ان کے پوشیدہ عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔
@Educarepak

معاشرتی اقدار نشانہ پر ہیں تحریر: آصف گوہر
Shares: