"ہمارا بچہ تو ہماری سنتا ہی نہیں”۔۔۔”بے کہنے کا ہو گیا ہے”۔۔۔”نہ تووقت پے سونا ہے نہ وقت پراٹھنا”۔۔۔” پڑھنا لکھنا ہے نہیں بس سارا دن موبائل ہے”۔۔۔”ہر ایک سے بدتمیزی اب تع محلے سے بھی شکاتیں آرہی ہیں”۔۔
یہ ہیں وہ جملے اور آوازیں جو آجکل تقریبا ہر گھر سے سنائ دی جا رہی ہیں ۔۔۔ ماں باپ بچوں کی شرارتوں اور منفی روئیے سے بے حد پریشان نظر آتے ہیں۔۔۔پرائیوٹ اسکولوں کی بھاری بھاری فیسیں دے کربھی بچہ نہ تو پڑھ پارہا ہے اور نہ ہی کوئ تربیت حاصل کر پارہا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ ٹیوشن کا بوجھ الگ ہے لیکن بچے ویسے ہی بدتمیز_بے سلیقہ اور بد تہزیب۔۔۔ایسا کیوں ہے۔۔۔؟؟
دراصل آج کل کی مصروف زندگی میں والدین نے اپنی زمہ داریاں بھی اسکول اور ٹیوشن کی ٹیچر پر ڈال دی ہے ان کو یہ بات معلوم ہی نہیں کہ بچے والدین کا عکس ہوتے ہیں اور بچوں کی سب سے بڑی تربیت گاہ اس کا اپنا گھر ہے اور اس کے گھر کا ماحول جیسا ہو گا بچہ بھی ویسے ہی ڈھلے گا یاد رکھئے آپ کا بچہ جو آپ کو دیکھ کر سیکھ سکتا ہے وہ کوئ دوسرا سکھا ہی نہیں سکتا یہ ایک ایسا خودکار عمل ہے جس کو سمجھنے کے لئے کوئ روکٹ سائنس نہیں۔۔۔
مجھے یاد ہےجب ہم چھوٹے تھے ۔۔تو جیسے ہی ازان کی آواز آئ ابا جی نےٹیلی ویژن بند کر دینا تھا اور فورا نماز کے لئے چلا جاتےتھے جیسے جیسے ہم بڑے ہوئے تو ازان ہوتے ہی ہم بھی ٹی وی بند کر دیتے اور نماز کے لئے مسجد کی دوڑ لگا دیتے تھے مجھے یاد نہیں کہ کبھی ابا جی نے ہمیں نماز کی سختی کی ہو ہم ابا جی کے طرزعمل کو دیکھ دیکھ کر اتنے عادی ہو چکے تھے کہ نماز چھوٹتی ہی نہیں تھی۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ میرے والد صاحب جب گھر میں داخل ہوتے تو پہلے دروازہ کھٹکھٹاتے اور داخل ہو کر باآواز سلام کرتے تھے اور امی سے مسکراتے ہوئے بات کرتے۔۔۔ آہستہ آہستہ یہ عادتیں ہم سب بہن بھائیوں میں بھی منتقل ہوئیں سب بہن بھائ بناء دستک دئے اپنے گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔۔۔ اور داخل ہوتے ہی باآواز ہو کے سلام کرتے اور امی کے پاس بیٹھ کر پہلے گپ شپ۔لگاتے پھر دیگر کاموں میں لگتے تھے۔۔۔۔
مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ابا جی جب آفس سے گھر آتے۔۔۔ تو پہلےدادی جان کے پاس بیٹھتے اور ان کا ہاتھ چومتے تھے۔۔۔ابا جی کی یہی عادت ہم سب بہن بھائیوں نے بھی پائ۔۔۔ گھر آتے ہی امی کے پاس بیٹھتے کوئ ان سے لپٹ کر اپنی محبت کا اظہار کرتا توکوئ ان کے زانو پر سر رکھ کر لیٹ جاتا اور کوئ تو باقاعدہ پیار کرنا شروع کر دیتا تھا۔۔۔
اس کے علاوہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اکثر ابا جی گھر کے کام کاج میں امی کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے اگر امی کپڑے دھو رہی ہوں یا کھانا پکا رہی ہوں تو وہ بھی انکی مدد کرتے تھے۔۔۔بالکل یہ ہی عادتیں کم و بیش ہم سب بھائیوں میں منتقل ہوئیں ہم سب کام کاج میں اپنی بیگمات کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔۔۔
علاوہ ازیں ہم نے ہمیشہ امی کو پنجگانہ نماز پڑھتے دیکھا کبھی سر سے دوپٹہ نہیں اترتا تھا ۔۔۔صبح صبح اٹھ جانا ۔۔فجر سے فارغ ہو کر تلاوت کلام ان کا معمول تھا ۔۔۔اور آپ یقین جانئے میری تمام۔بہنیں بالکل امی کی طرح ہی صبح سویرے اٹھتی ہیں اور وہی معمولات زندگی اپنائ ہوئ ہیں جو میری والدہ کے تھے۔۔۔۔
ہم نے تو کبھی اپنے والدین کو لڑتے ہوئے بھی نہیں دیکھا لڑنا تو دور کی بات ہماری امی جی ابا کے آگے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتی تھیں۔۔۔ہمیشہ اہل محلہ کے دکھ درد میں شریک رہتی تھیں ۔۔۔محلے میں کسی کے گھر کوئ تقریب ہو ہمارا بیٹھک والا کمرہ شادی کی تقریب والے محلے داروں کو دے دیا جاتا تھا ۔۔۔جہاں ان کے مردمہمانوں کا انتظام ہوتا تھا۔۔۔اور امی اور ابا دونوں ان کے لئے ایسے بڑھ چڑھ کرکام کرتے تھے جیسے وہ محلے دار نہیں رشتہ دار ہوں۔۔۔اب تو سارے محلے کے گھر ہی بڑے ہو چکے ۔۔۔لیکن پھر بھی ان کے دکھ سکھ میں ہم سب ان کے ساتھ ویسے ہی کھڑے ہوتے ہیں جیسے ہمارے والدین ہوتے تھے۔۔۔
اچھا ہمارے گھر میں ایک اور اچھی بات تھی کوئ بھی بات ہو۔۔۔مسئلہ ہو۔۔۔یا کسی کے رشتے وغیرہ کی بات ہو۔۔ابا جی ہم سب سے مشاورت ضرور کرتے تھے۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں کافی چھوٹا تھاجب میری بڑی بہن کا رشتہ آیا تو ابا جی نے مجھ سمیت سب بہن بھائیوں سے مشورہ کیا تھا۔۔۔ اکثر دیگر امور میں بھی وہ ہمیں مشاورت میں شامل رکھتے تھے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ میں بھی اپنے گھر میں کسی بھی امور پر اپنی فیملی سے مشاورت کرتا ہوں اور ہمارے گھر میں جو بھی فیصلے ہوتے ہیں باہمی رضامندی سے ہی ہوتے ہیں۔۔۔
ایک بات اور۔۔۔میرے گھر میں صفائ کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا والدہ بغیر ہاتھ دھوئے کچن میں بھی نہیں جاتی تھیں اور ہمیں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔گھر ہمیشہ شیشے کی طرح دمکتا رہتا تھا۔۔۔ جھوٹ بولنے کو اور گندے الفاظ کے استعمال کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔۔۔اور اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے یہ ہی عادت ہم سب بہن بھائیوں میں بھی ہے سب کے گھر صاف ستھرے روشن ۔۔اور ہمیشہ ہی سچ اور ستھرا ہی بولتے ہیں۔۔۔۔
تو دوستوں! یہ تمام عادات جو ہمیں اپنے والدین سے ملیں اور ہم نے بھی وہی طرز زندگی اپنے انفرادی گھرانے میں بھی اپنائ ہے۔۔۔اب ماشاء اللہ میری اولاد بھی اسی نقش قدم پر چل رہی ہے۔۔۔ سب بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے والدین نے ہمیں سرکاری اسکولوں میں ہی پڑھایا اور بڑے نے چھوٹے کو پڑھائ میں رہنمائ کی اور اس نے اور نیچے والے کو ۔۔اس طرح ٹیوشن سے بھی دور رہے۔۔۔ ہماری تربیت توازخود ہی ہوتی رہی۔۔۔ نہ کوئ بھاری فیس والا اسکول ۔۔۔اور نہ کوئ قیمتی ٹیوشن۔۔۔ سب بہن بھائ ماشاءاللہ اس معاشرے میں ایک کامیاب باعزت زندگی بھی گزار رہے ہیں۔۔اور اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے ہمارے گھر سے ایسے جملوں کی آواز بھی نہیں آتیں جن کا زکر میں نے مضمون کے شروع میں کیا ۔۔
@Azizsiddiqui100








