جیسا کہ پہلے بھی اس حوالے سے ذکر ہوا کہ ہمارے معاشرے میں آج ایک غریب کی کیا حیثیت ہے۔ آج یہاں غریبوں کے لیے نہ تو کوئی احساسات ہیں اور نا ہی اس کی کوئی عزت۔ اب مقام اور عزت کا حقدار تو صرف امیر ہی کے لیے ہے۔ جس کے پاس جتنا پیسہ اتنی اس کی عزت اور مقام معاشرے میں۔ یہ ہے تو ایک حقیقت پر ہے بہت تلخ ٹھیک ویسے ہی جیسے سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔

پچھلی بار بات ہوئی کہ کس طرح غریبوں کو تعلیم اور روزگاری کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر ان کی وجہ سے وہ کس قدر احساس کمتری کا شکار بھی ہوتا یے۔ لیکن صرف بات تعلیم اور روزگار پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ یہاں ہمارے معاشرے میں جب بھی کسی غریب کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے انہیں کبھی بھی انصاف نہیں ملا۔

ظلم پہ ظلم کی انتہاء تو دیکھیں ایک تو زیادتی بھی غریب کے ساتھ ہو اور پھر اسے انصاف نہ دیتے ہوئے اس پر ایک اور زیادتی بھی کی جائے۔ اپنی زندگی میں ایسے واقعات بھی دیکھے ہیں جہاں پہ ہمیشہ بیچارے غریب کو شکست سے دوچار ہونا پڑتا یے۔ غریبوں کو تو صدیاں لگ جاتی ہیں اپنے جائز انصاف کے حصول کے لیے پر پھر بھی ناکامی اور شکست منہ کھولے ان کا انتطار کر رہے ہوتے ہیں۔

پہلے غربت ان کی کمر توڑ دیتی ہے اور پھر رہی سہی کسر عدالتوں کی ناانصافی پوری کر دیتی ہے۔ آپ خود کو ایک غریب مجبور انسان کی جگہ رکھ کر دیکھیں ایک ایسے بےبس انسان کے جو ہر جگہ اپنی غربت کی مار کھا جاتا ہے۔ جب اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف تھک ہار کر عدالت کا رخ کرتا ہے صرف اپنے حق کا انصاف لینے کے لیے تو ایسے میں سب سے پہلے عدالت کی لمبی لمبی پیشیاں بھگتنا پڑتی ہیں۔

پھر وکیلوں کو اپنی اوقات سے بڑھ کر اپنا سب کچھ بیچ کر انہیں ان کی فیسیں دیتا ہے اور ساری عمر جوانی سے بڑھاپے تک صرف انصاف کے انتظار میں بیٹھے رہتا ہے۔ آخر میں وہی عدالت اور عدلیہ منہ چڑا جاتے ہیں۔ پھر دوسری طرف ایک امیر کی مثال لے لیں اس کے لیے تو ہمارے ملک کی عدالتیں اور عدلیہ ہمیشہ پیش خدمت رہتے ہیں۔ جنہیں نا تو انصاف انصاف کے لیے بار بار عدالت کا رخ کرنا پڑتا ہے اور نا ہی اپنی شکست کا کوئی ڈر ہوتا ہے۔

کیونکہ ان کے پاس دولت کی فراوانی ہوتی ہے جو انہیں مضبوط اور طاقتور بنائے رکھتی ہے۔ پھر دوسری طرف چلتے ہیں آج کے دور میں غریب جہاں بہت سی مشکلات کا شکار ہے وہیں جب وہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو ایک اور نئ دشواری ان کا انتطار کیے ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بھی کوئی بیمار ہوتا ہے تو پھر اس کے علاج کے لیے اچھی خاصی رقم بھی درکار ہوتی ہے۔

جس سے وہ اپنی ادوایات کا خرچہ اٹھا سکے۔ پر یہاں بھی ایک غریب کیا کرے؟ ابھی تک تو ان کے لیے بہت ہی مشکل وقت تھا کیوں کہ اس ملک میں غریب کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا تھا کہ بروقت اپنا صحیح علاج کروا سکے اور اس کے برعکس ایک امیر کو اگر کوئی معمولی سے معمولی بیماری بھی ہوتی تو وہ علاج کے لیے باہر کے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ پر اب اس نئے پاکستان میں بہت سی امید کی کرنیں نظر آئی ہیں۔

جس کی سب سے بڑی مثال احساس صحت کارڈ ہے۔ جس کی بنیاد وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حال ہی میں رکھی ہے۔ اس کی وجہ سے اب غریب کی کچھ ہمت بندھی ہے۔

@SeharSulehri

Shares: