محرم الحرام کا نام آئے اور نواسہ رسول (ﷺ)،جگر گوشہ بتول، لختِ جگر حیدرِ کرار سید الشھداء امام حسین ؓ کی لازوال قربانی کا تصور قلوب و اذہان کو چُھو کر نہ گزرے؛ مسلمان سے اس بات کا تصور ممکن نہیں-آپ ؓ اللہ تعالیٰ کی وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کا اسم مبارک آسمانوں پہ (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس سے منظورہوکر)رکھاگیا،آپ ؓ کی نہ صرف قبل از ولادت و قبل از شہادت خبریں مشہور ہوئیں بلکہ دنیا میں ہی جنتیوں کا سردار ہونے کا لازوال شرف حاصل ہوا- حضور نبی کریم (ﷺ) آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور اپنی امّت کو بھی اپنے اہلِ بیت سے محبت کرنے کی تلقین فرمائی اور محبتِ اہلِ بیت کو اپنی محبت کے حصول کا ذریعہ بھی قرار دیا۔

حضرت اُم الفضل بنت حارث (رضی اللہ عنہ)، رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کی، یارسول اللہ (ﷺ)! میں نے گزشتہ رات ایک خطرناک خواب دیکھا ہے، آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا: مَا هُوَ؟(وہ کیاہے؟) اس نے عرض کی: وہ بہت خطرناک ہے،آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا: ’’مَا هُوَ؟‘‘ آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی: مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ (ﷺ) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے- رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’رَأَيْتِ خَيْرًا‘‘’’تم نے یہ اچھاخواب دیکھاہے‘‘ (اس کی تعبیر یہ ہے کہ )ان شاءاللہ (سیدہ )فاطمہ(رضی اللہ عنہ)کے ہاں بچہ پیداہوگا اور وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا-چنانچہ سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہ) کے ہاں حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی اور رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان کے مطابق وہ میری گود میں دئیے گئے- (المستدرک علی الصحیحین ،باب:اَوَّلُ فَضَائِلِ أَبِي عَبْدِ اللهِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ الشَّهِيدِ (رضی اللہ عنہ)

آپ ؓ کی ولادت با سعادت ہجرت کے چوتھے سال، 5 شعبان کو(مدینہ منورہ) میں ہوئی-( سیراعلام النبلاءباب: الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ)

حضرت علی بن طالب ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت حسن ؓ کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام حمزہ رکھا اور جب حضرت حسین ؓ کی ولادت ہوئی تو میں ان کا نام ان کے چچاکے نام پہ ’’جعفر‘‘رکھا-آپ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے بلایا اور ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اپنے ان دونوں بیٹوں کے نام تبدیل کروں‘‘- (حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کی: ’’اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‘‘-اللہ اوراس کارسول بہتر جانتے ہیں؛ پھر آپ (ﷺ) نے ان کے نام مبارک حسن اورحسین رکھے-( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،كِتَابُ الْأَدَبِ)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : ’’مَیں نے ان (شہزادوں )کے نام حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد کے نام پر ’’ شَبَّر، وَشَبِير، وَمُشَبّر‘‘رکھاہے ‘‘-( باب:الحسین بن علی(رضی اللہ عنہ) أسد الغابة فی معرفة الصحابة)

حضرت امام حسین ؓ کے فضائل و مناقب احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں :

آپ ؓ کی ذاتِ مبارک کے فضائل و مناقب انسانی بساط لکھنے سے قاصرہے ،حصول برکت کے لیے چندروایات رقم کرنے کا شرف حاصل کیاجاتاہے –

حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اس حال میں کہ امام حسن وحسین (﷠) آپ (ﷺ)کے سینہ مبارک پہ کھیل رہے تھے،تو مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)! ’’کیا آپ (ﷺ)ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ توآپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :میں ان سے محبت کیسے نہ کروں، یہ دونوں دنیاکے میرے دوپھول ہیں‘‘- ( سیراعلام النبلاء ،الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ ؓ)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جو مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ ان دونوں شہزادوں سیدنا امام حسن ؓ اور سیدنا امام حسین ؓ سے محبت کرے‘‘-
(مسند أبی يعلى،باب :مسند عبداللہ بن مسعود)

’’حضرت ابوجعفر ؓ سے مروی ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ (ﷺ) انصار کی مجلس سے گزرے اس حال میں کہ آپ (ﷺ) دونوں شہزادوں کو (اپنے کندھوں پہ) اٹھائے ہوئے تھے،تو لوگوں نے عرض کی:کتنی اچھی سواری ہے! تو آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:دونوں سوار بھی کتنے اچھے ہیں ‘‘- (مصنف ابن ابی شیبہ،باب: مَا جَاءَ فِي الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا)

حضرت یعلیٰ عامری ؓ سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ ایک دعوت میں شرکت کے لیے نکلے راستے میں حضرت امام حسین ؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،پس آپ (ﷺ)باقی لوگوں سے آگے تشریف لے گئے اور(حضرت امام حسین ؓ کو پکڑنے کے لیے )آپ (ﷺ)نے اپنادستِ اقدس بڑھایا،لیکن آپ ؓ کبھی اِدھربھاگ جاتے کبھی اُدھر اور حضور نبی کریم (ﷺ) خوش ہو رہے تھے یہاں تک حضور نبی کریم (ﷺ) نے آپ ؓ کو پکڑ لیا اور آپ (ﷺ)نے اپنا ایک ہاتھ مبارک آپ ؓ کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا گردن پہ رکھاپھرآپ (ﷺ)نے اپناسرمبارک جھکاکر اپنا دہن مبارک حضرت امام حسین ؓ کے دہن پہ رکھا اور انہیں بوسہ دیا اور پھر آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’حسین مجھ سے ہیں اورمیں حسین سے ہوں یااللہ تواُس سے محبت فرما جوحسین سے محبت کرے،حسین (میرے) نواسوں میں ایک نواسہ ہے‘‘ – (مصنف ابن ابی شیبہ،باب: مَا جَاءَ فِي الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا)

حضرت سلمان ؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

’’(حضرت)حسن ؓ و حسین ؓ میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اللہ اس سے محبت فرمائے گا اور جس سے اللہ فرمائے گا اس کو جنت میں داخل کرے گا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اللہ اس سے ناراض ہوگا اور جس سے اللہ ناراض ہوگا اسے جہنم میں داخل کرےگا‘‘-یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہےلیکن ان (شیخین) نے اس کو ذکر نہیں کیا- (المستدرك على الصحيحين،وَمِنْ مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنِي بِنْتِ رَسُولِ اللہِ(ﷺ)

حضرت علی المرتضےٰ ؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضوان اللّٰہ علیھم کے ہاتھ کو پکڑا اورارشاد فرمایا:

’’جس نے مجھ سے، ان دونوں سے،ان دونوں کے والد (محترم) سے اور ان کی والدہ (محترمہ) سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا‘‘-(سنن الترمذی، کتاب المناقب)

’’ایک مرتبہ حضورنبی کریم (ﷺ) سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے گھرسے سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓ کے گھرکی طرف تشریف لے گئے اور آپ (ﷺ)نے سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے رونے کی آواز سنی تو آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :
’’کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے؟‘‘

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) سجدہ فرما رہے تھےحضرت حسن یاحضرت حسین ؓ تشریف لائے اور حضور نبی کریم (ﷺ)کی پیٹھ مبارک پہ سوار ہو گئے تو آپ (ﷺ) نے سجدہ کو لمبا فرما دیا، عرض کی گئی یارسول اللہ (ﷺ)! أَطَلْتَ السُّجُودَ؟ آپ (ﷺ)نے سجدہ بہت لمبا کیا ہے؟ تو رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :
’’میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تو میں نے اسے جلدی سے اتارنا پسند نہ کیا‘‘-( مسند أبی يعلى الموصلی،باب: ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسٍ)

حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی المرتضیٰ، سیدہ فاطمۃ الزہراء اور حسنین کریمین (رضی اللہ عنھم) سے ارشادفرمایا :جو تم سے جنگ کرے گا مَیں اس سے جنگ کروں گا اور اس سے صلح کروں گا جوتم سے صلح کرے گا‘‘- ( سنن الترمذی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا)

صحابۂ کرام اور ادبِ حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ):

(جب مسلمانوں کو خوشحالی ہوگئی) حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جب و ظائف مقرر فرمائے، غزوہ بدرمیں شریک حضرات کے لیے پانچ پانچ ہزار وظیفہ مقرر فرمایا اور بدر میں شریک صحابہ کرام ؓ کے صاحبزادوں کے لیے دو دو ہزار وظیفہ مقررفرمایا سوائے حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین رضی اللہ عنھم کے – ’’رسول اللہ (ﷺ) کی قرابت کا لحاظ کرتے ہوئے حسنین کریمین (﷠) کاوظیفہ ان کے والد حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) جتنا (پانچ ہزار) مقررفرمایا- (حالانکہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر کے لیے بھی تین ہزار وظیفہ مقرر فرمایا )‘‘-( الطبقات الکبرٰی لابن سعدؒ،باب: ذِكْرُ اسْتِخْلافِ عُمَرَ )

امام زہری سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضور نبی کریم (ﷺ)کے اصحاب (﷢) کو جب کپڑے دیئے (تو آپ کی سوچ کے مطابق ) ان کپڑوں میں حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین(رضی اللہ عنھم) کی شان کے مطابق کوئی کپڑانہ تھا؛ ’’تو آپ ؓ نے ایک شخص کو یمن بھیجا وہ ان دونوں شہزادوں کے لیے لباس لے کرآیااور(جب کپڑے آگئے تو)آپ ؓ نے فرمایا :اب میرادل خوش ہوگیا‘‘- ( مسند أمير المؤمنين أبی حفص عمر بن الخطاب ؓ، (لابن کثیرؒکتاب الجھاد)

حضرت مدرک بن عمارہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو دیکھا وہ حضرت حسن اور حضرت حسین (رضی اللہ عنھم) کی سواری کی لگام پکڑئے ہوئے ہیں- آپ سے عرض کئی گئی :کیا آپؓ حسنین کریمین (رضی اللہ عنھم) کی سواری کی لگامیں تھامے ہوئے ہیں حالانکہ آپ (رضی اللہ عنہ) ان سے بڑے ہیں ؟توآپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’بے شک یہ دونوں رسول اللہ (ﷺ)کے نواسے ہیں تو کیا یہ میرے لیے سعادت نہیں کہ میں ان کے سواری کی لگام کو تھاموں‘‘- ( تاریخ دمشق لابن عساکر،باب: الحسين بن علی بن أبی طالبؓ)

’’حضرت عمروبن العاص ؓ خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے جب آپ نے حضرت حسین بن علی ؓ کو آتے ہوئے دیکھاتو آپ ؓ نے فرمایا:
’’یہ ہستی آج مجھے زمین و آسمان میں سب سے زیادہ محبوب ہے‘‘- (تہذیب التہذیب للعسقلانیؒ،باب:الحاء)

حضرت ابوالمہزم ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوھریرہ ؓ اپنے کپڑے کے کنارے سے سیدناامام حسین (رضی اللہ عنہ) کے قدمین شریفین سے مٹی جھاڑ رہے تھے تو حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا: اے ابوھریرہ! آپ یہ کیاکررہے ہیں؟ تو حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:

’’مجھے چھوڑدیجیے،اللّٰه رب العزت کی قسم !اگر لوگوں کو آپ کے بارے میں وہ علم ہوجائے جومیں جانتاہوں تو وہ آپ کو اپنے کندھوں پہ اٹھالیں ‘‘- ( الطبقات الکبرٰی کتاب:الحسين بن علیؓ)

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو صحابۂ کرام اور اہلِ بیتِ اطہار بالخصوص حضرت امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کی سچی محبت عطا فرمائیں کہ آپ کی محبت سے ہی حضور نبی کریم(ﷺ) کی محبت اور رضا حاصل ہوتی ہے۔ اور ہمیں یزید ملعون اور اس کے کے ساتھ مل کر حضرت امام حسین رضی اللّٰہ عنہ سے جنگ کرنے والوں اور بے وفائی کرنے والوں کے گمراہی والے راستے پر چلنے سے بچا کر رکھے۔ آمین۔

@ChAbdul_Salam

Shares: