جس طرح آئے دن ہر چیز کے ریٹ بڑھ رہے ہیں ہیں جیسے کہ بجٹ 2021 سے 2022 میں میں جتنی بھی زیادہ کھانے پینے والی ضرویات کی اشیاء ہیں ان کے اوپر پر بہت زیادہ ٹیکس لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے غریب کا جینا محال ہو گیا ہے ہے خان صاحب غریب کی استعمال ہونے والی اشیاء کے ریٹس کو کم کرنا چاہیے تاکہ غریب سکون کی زندگی بسر کر سکے
ہر جگہ پہ کہیں تاجر پریشان ہیں تو کہیں عوام پریشان اور کہیں گورنمنٹ پریشان ہے لیکن اس کا حل تلاش کرنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ اگر مہنگائی بہت زیادہ ہو رہی ہے تو اس کو روکنے کے لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ اس کا حل کرے اس کی روک تھام کے لیے کوئی کام کریں تاکہ جو رشوت خوری لے کر اپنا کام صحیح طریقے سے سرانجام نہیں دے رہے ان کی وجہ سے مہنگائی بہت زیادہ ہو رہی ہے ایک شخص جو ایمانداری سے سے اپنا روپیہ پیسہ جمع کرکے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتا ہے اور ایک شخص جو دن رات رشوت خوری جھوٹ فراڈ لگا کر دھوکے بازی دے کر پیسے کماتا ہے جو معاشرے کیلئے بھی بے سکونی کی علامت ہے
پچھلے دنوں وزیراعظم نے خود شکوہ کیا کہ جو تنخواہ انہیں ملتی ہے اِس میں گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتا ہے تو غریب آدمی کا کیا حال ہوتا ہوگا جس کے گھر میں 4 یا 5 لوگ کھانے والے ہیں وہ کیسے زندگی بسر کرتا ہے جو کماتا ہے وہ 2 وقت کی روٹی کھاتا ہے جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے اسکول کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے
ایسے لوگ بھی معاشرے میں عام پاۓ جاتے ہیں جن کا شیوہ ہی لوگوں کو تنگ کرنا اور حرام روزی بچوں کو کھلانا جیسا کہ خورد ونوش کی ایشیاء سستے داموں لاکر منہ مانگے پیسے وصول کرنا جھوٹ اور فراڈ سے چیزوں کو بیچنا جس طرح ہر چیز میں ملاوٹ استعمال کی جا رہی ہے اسی طرح تاجروں میں غریب آدمی کی زندگی کو اجیرن کیا ہوا ہے وزیراعظم نے پیسہ بنانے کے لئے مہنگائی کرنے والے مافیا کو کیفر کردار تک پہنچانے کا جو عہد کیا ہے وہ لائق تحسین ہے مگر اِس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ مصنوعی ہے یا اصلی؟
تاجروں کو چاہیے جو خورد ونوش ایشیاء کو زیادہ غیر متوازن ہوکر نہ تو اس قدر قیمتوں کو اتنا بلند کر دو کہ غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہو اور نہ ہی اس قدر نیچا کر دو کہ مارکیٹ سے خورد ونوش کی ایشیاء ملنا ہی محال نہ ہو جاۓ اور وہ کارخانے اور فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں تو جہاں ایک طرف مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو تو دوسری طرف بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو جائے اس نظام میں نچلی سطح پر بھی قیمتوں میں کمی بیشی کا ایک ایسا سلسلہ جاری رہتا ہے جو عام آدمی کیلئے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ہمارے ملک میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے پرائس کنٹرول کمیشن کے نام پر ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل ایک محکمہ قائم ہے، اس محکمے کا کام خورد و نوش اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ مگر یہ محکمہ بھی مکمل ناکام ہے کیونکہ نااہل افسران میڈیا ٹاک کیلئے موجود ہوتے ہیں مگر عوام کیلئے نہیں
عوام کو آج دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں، غربت کا یہ عالم ہے کہ پہلے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کیا کرتے تھے مگر اب بچے خود ہی بھوک سے مررہے ہیں۔ آج لوگوں کے حالات زندگی اس جگہ پر آچکی ہے کہ دس روپے کی چینی اور پانچ روپے کی پتی خرید کر صبح کا ناشتہ کررہے ہیں۔ کئی گھرانے تو اس سے بھی محروم ہیں ہماری حکومت وقت سے گزارش ہے اس مہنگائی پر قابو پایا جاۓ اگر مہنگائی مصنوعی ہے تو اس کےلئے کوئی اقدامات اٹھاۓ جانے چاہیے اگر ملکی سطح پہ ایسے ہے تو جو غریب کی ضروریات کی روزمرہ کی ایشیاء کے دام کرنے چاہیے تاکہ غریب آسانی سے ان ایشیاء کو خرید سکے
@Ishaqbaig___