ظالم سماج تحریر: نوید خان

0
97

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
مُنصف ہو اگر تو حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے۔۔

میں اکثر سوچتا ہوں
اسلام کی آمد سے پہلے جب لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تو
وہ بڑا ظلم تھا؟
یا موجودہ زمانے میں
معصوم کلیوں سے جنسی درندگی کرنا اور پھر جان سے مار دینا بڑا ظلم ہے؟
گُٹھن زدہ اس ماحول میں جب بے چینی حد سے بڑھ جائے تو دل سوال کرتا ہے۔۔
آخر وہ کونسا عارضہ ہے جو حضرت انسان کو حیوان بنا دیتا ہے؟
کب تک ہم افسوس مزمت ماتم اور لعن طعن کرنے کے بعد خود کو بری اُلزِمہ سمجھے گے؟
کیا ہمیں اس کی وجوہات پر غور نہیں کرنا چائیے
آنے والی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لئے
اسکا سدِباب ناگزیر ہوچکا
ورنہ یہ سانحات ہوتے رہے گے
چار دن کا ماتم بھی ہوگا
اور پھر کسی افسانے پر بنے ڈرامے کی آخری قسط
پر ایک نئی بحث ہوگی
آٹھ سالہ نور کو اکیلے والدین نے کیوں بھیجا؟
مولوی شمس نے بچے کو سو بار ریپ کیا اور والدین کو خبر تک نہ ہوئی آخر کیوں؟
لاہور کی عائشہ مینارِ پاکستان کے ہجوم میں کیوں گئی؟

ہوس کسی کی مجبوری نہیں دیکھتی، نہ عمر دیکھتی ہے نہ جنس دیکھتی ہے چاہے وہ جانور ہو، مدارس میں پڑھنے والے کمسن بچے ہوں، اسکولوں میں اساتذہ کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوتے طلبہ و طالبات ہو۔
اس معاشرے میں ہونے والی درندگی پر جنگل کے درندے بھی حیران و پریشان ہیں۔
عوامی مقامات،پارک اور فوڈز کی جگہ پر آپکو وہ لفنگوں کا ٹولہ ملے گا جنکی طوفانِ بدتمیزی کی وجہ سے آپ اپنی فیملی کو ایسی جگہ لے کر جانے کا سوچے گے بھی نہیں

ہمارے معاشرے میں اخلاقیات اور حیا کا بہت فقدان ہیں
روز ایسے ایسے واقعات رونماع ہورہے ہیں
جن پرانسان شرمندگی کی کسی کھائی میں گِر جاتا ہے
ہمارا قانونی نظام بہت کمزور ہے
اس لئے مجرم ایسے گھناؤنے جرم کرتے ہوئے بھی نہیں گھبراتا۔
اور یہ جو مذہب کا نقاب اوڑھے سفاک بھیڑیے ہیں نا جو معصوم بچوں کا ریپ کرتے ہیں ان کو تو سرعام پھانسی دینی چاہئیے لیکن بچوں کے ماں باپ کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ پھولوں کی نگہداشت کیسے کرتے ہیں؟
دنیا کے کسی ملک میں بچوں کو اپنے گھر اکیلا نہیں چھوڑا جاتا اور یہ والدین اپنے پھولوں کو بھیڑیوں کے آگے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس معاشرے کی بقا ماضی کی شاندار روایات تھی، جب انسانوں کے کردار کی عزت ہوتی تھی ناکہ دولت یا چمک دمک کی؛ جب پڑوسیوں کے بچے بھی اپنے بچوں کی طرح عزیز ہوتے تھے۔ جب بڑے بوڑھے، اجنبی لوگوں کے ساتھ محلے کے بچے جاتے دیکھ کر روک کر سوال پوچھتے تھے۔ جب کوئی بدمعاش لڑکا اسکول کالج میں کسی چھوٹے کو ستاتا تھا تو کوئی اعلیٰ کردار کا بہادر لڑکا بچاتا بھی تھا۔وقت آگیا ہے کہ ہمارے لوگ ایسے سفاک لوگوں کا بائیکاٹ کرے اور جو بائیکاٹ نہ کرے اسے بھی اس جیسا سمجھا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ کوئی ایسا جدید سسٹم لائےجس سے ایسے لوگ سزا کاٹنے کے بعد جب جیلوں سے باہر آجائے اورکسی شہر میں جائےتو ان کے بارے میں ہر شہر میں متعلقہ تھانے سے ایس ایم ایس پورے شہر کو جائے کہ ایک بچوں کا شکاری درندہ اس شہر میں آگیا ہے، اس پر آنکھ کُھلی رکھو،محتاط رہو اور بندوقیں صاف کرلو تاکہ اسے پتا چلے کہ اب کسی بچے پر آنکھ اٹھائی تو دوبارہ وہ جیل میں نہیں، سیدھاجہنم جائے گا۔
اب ان بدبُودار کہانیوں کو رُکنا چاہیے
وقت آ گیا ہے، کہ ہم اس برائی کو جڑ سے اُکھاڑ کر ختم کردے تاکہ ہر دیکھنے والا پناہ مانگے۔
ہماری ماؤں کو چاہیے آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت کرے، بعد میں ان پر کوئی وظیفے، کوئی دعائیں اور کوئی عبادتیں اثر نہیں کرتی۔
ویسے تو یہاں نا خواتین محفوظ ہیں اور نا ہی بچے
انسانوں کے اس معاشرے میں حیوانوں کا راج اور ہوس کے پُجاری بستے ہیں تو
اپنا خیال خود رکھیں؛ بچوں کا خیال رکھیں! اکیلے مت نکلیں؛ نکلیں تو رش والا راستہ لیں؛ ڈرائیو کرنے والی خواتین پرس میں لیڈیز پستول رکھیں!
پولیس مجرموں کو پکڑ سکتی ہے؛ وقت کو واپس نہیں لا سکتی!

ہم جو اِنسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

Name: Naveed Khan
@Naveedmarwat55

Leave a reply