کسی عاقل و بالغ شخص کا جان بوجھ کر کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کرنا جرم کہلاتا ھے۔موجودہ دور میں جرائم کسی بھی معاشرے کا ایک لازمی جزو بن چکے ہیں۔جرم تو جرم ہی ہوتا ھے خواہ وہ اخلاقی جرم ہو یا جنسی طور۔جرم ہمارے معاشروں میں اس قدر سرایت کرچکا ھے کہ اس نے نہ کسی شخص انفرادی زندگی محفوظ ھے اور نہ ہی اجتماعی، ہر خاص و عام اس کی زد میں آچکا ھے۔ہمارے معاشرے میں اب جو جرائم کے حالات ہیں یہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں ھے ایسے لگتا ھے جیسے پورا معاشرہ ہی جرائم کی لپیٹ میں آچکا ھے۔آج بڑے بڑے دانشور اور مہذب تعلیم یافتہ افراد بھی اپنے زاویے کے مطابق اس کے اصل محرکات اور اسباب پر اپنا نکتہ نظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔کوئی ان جرائم کو بیروزگاری قرار دیتا ھے تو کوئی حکومت کی ناقص پالیسیوں کو مورد الزام ٹھہراتا ھے۔
ترقی یافتہ ممالک بھی جرائم سے محفوظ نظر نہیں آتے،بلکہ ترقی پذیر ممالک کی نسبت ان ممالک میں مجرمان نت نئے طریقوں سے جرائم کرتے نظر آتے ہیں۔ہر معاشرے کے کچھ اصول ہوتے ہیں جس کے مطابق وہاں کے لوگ اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں،اور اپنے روز مرہ زندگی کے معاملات ان ہی اصولوں کے تحت سرانجام دیتے ہیں۔ اگر کسی بھی معاشرے میں قانون کی بالا دستی قائم نہ ہوسکے تو وہ معاشرے کی تباہی کا باعث بنتا ھے اور جرائم کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا ھے۔اس سے عوام بدحالی اور ناانصافی کا شکار ہوجاتی ھے، جس کی وجہ سے معاشرہ زلت و رسوائی کا شکار ہوجاتا ھے۔
پاکستان میں اخلاقی جرائم میں کثرت سے اضافہ ہوا ھے اس وقت پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں بداخلاقی اور بےحیائی کے اڈے قائم ہیں سب سے ذیادہ تشویشناک اور تکلیف دہ بات یہ ھے کہ ان اڈوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مکمل قانونی تفظ دیا جاتا ھے اور ان اڈوں پر کام کرنے والی طوائفوں کو کھلے عام چھٹی دے دی گئ ھے ملک پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے کبھی بھی قحبہ گری کو روکنے کے لئے کبھی ازخود نوٹس لینے کی جسارت نہیں کی، اگر پنجاب کی بات کی جائے تو لاہور کی سب سے بڑی اور تاریخی بادشاہی مسجد کے سائے تلے موجود برائے کے ان اڈوں کے تدارک کے لئے پاکستان بننے کے بعد سے اب تک پولیس اعلیٰ حکام کے حکم نامے کی منتظر ھے۔اگر ہم ماضی پر نگاہ ڈالیں تو لال مسجد کے خطیب اور طالب علموں پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ اسلام میں موجود مساج سنٹر کو بند کروانے کے لئے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کررہے تھے جبکہ میڈم شمیم نامی خاتون ہے کاروبار میں بے جا مداخلت کررہے تھے، لال مسجد کی انتظامیہ کا یہ اقدام انتہائی قابل ستائش ھے کہ انہوں نے برائی کو ازخود ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ سب نظر کیوں نہیں آتا؟ مولانا عبد العزیز کا یہ اقدام اگر خلاف قانون تھا تو ملک میں موجود بے حیائی کے یہ اڈے اور مساج سنٹرز کس قانون کے تحت چلائے جارہے ہیں؟ کوئی پوچھنے والا کیوں نہیں ھے یہاں؟
پاکستان کے دنیا میں نقشے پر ابھرنے کے ساتھ ہی یہ ملک مختلف جرائم میں دھنستا چلا گیا، اسلامی ملک ہونے کے باوجود بھی شراب کی درآمد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ھے بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھلے عام شراب دستیاب ہے، اس کے علاوہ بے شمار ایسے جرائم میں اضافہ ہوا ھے۔
اخلاقی جرائم کے حوالے سے اس وقت عوامی رائے دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ھے، ایک طرف جہاں یہ کہا جاتا ھے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرمان کو قرار واقعی ہی سزا دینی چاہیے وہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ ہر فرد کا انفرادی عمل ھے ہمیں کسی کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے میرے خیال سے زاتی عمل کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں ھے کہ آپ خلاف قانون ہر عمل کرتے پھریں۔یہاں یہ بات قابلِ غور ھے کہ اگر اسلام میں شخصی آزادی کا تصور ہوتا تو زانی، شرابی کبھی بھی سزا کے مرتکب قرار نہ پاتے۔ ایک اسلامی ریاست میں صرف مالی بدعنوانیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اخلاقی جرائم کی بھی بیخ کنی لازمی ھے جب تک حکومت مالی جرائم کے ساتھ اخلاقی جرائم کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی اس وقت یقیناً حکومت اپنی آئینی اور مذہبی ذمہ داریوں سے ہر گز عہدہ برآں نہیں ہوسکتی
۔۔Written by
: Khalid
Imran Khan
:@KhalidImranK۔