پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس کا تعلیمی اداروں کی چھٹیوں میں 15 ستمبر تک توسیع کا اعلان ایک دفعہ پھر عوام میں اس سوال کے سر اٹھانے کا باعث بن گیا ہے کہ کیا کورونا وائرس صرف تعلیمی اداروں میں ہی اثر انگیز ہے؟ گزشتہ دو سال سے تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کا اعلان ہوتے ہی یہی سوال زیرِ بحث آتا ہے.
دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا وبائی مرض کورونا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو آسیب کی طرح چمٹ چکا ہے. پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بنا ہے. لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. کئی ممالک کی معیشت، زراعت اور تعلیم خاصے نقصان سے دوچار ہوئی ہے. دنیا میں کم و بیش ہی کوئی ملک ہوگا جو کورونا وائرس کی لپیٹ میں نہیں آیا. کئی جان کے محافظ ڈاکٹر بھی کورونا وائرس کا شکار ہو کر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں.
اس سب کے باوجود آج بھی پاکستان کی ایک تہائی آبادی کورونا کو ایک فریب ہی تصور کر رہی ہے. زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ بھی اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ایک حکومتی سازش ہے.
اب کی بار بھی تعلیمی اداروں میں چھٹیوں میں توسیع کا اعلان منظر عام پر آتے ہی عوام غصے کا اظہار کرتے ہوۓ یہ سوال کرتی نظر آ رہی ہے کہ صرف تعلیمی ادارے ہی کیوں بند کیے جا رہے ہیں، بازار اور مارکیٹیں کیوں نہیں؟
بچوں اور بوڑھوں میں قوت مدافعت نوجوانوں کی بانسبت خاصی کم ہوتی ہےاسی لیے بچےاور بوڑھے جلد جراثیم کی لپیٹ میں آجاتے ہیں. اور ایسے خطرناک جراثیم ان پر زیادہ گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں.
پوری دنیا میں اس وقت آنلائن تعلیم کو ترجیح دی جا رہی ہے. اور یہاں ہر گھر میں موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہونے کے باوجود نہ صرف ہماری عوام جان بوجھ کر تعلیم کے معاملے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے بلکہ الزام ہمیشہ کی طرح دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے کی بھرپور کوشش بھی کر رہی ہے.
حکومت کی گزشتہ بازاروں پر پابندی کے باوجود عوام مسلسل حکومتی فیصلے کی خلاف ورزی کرتی رہے اور بند دکانوں کے اندر گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی. ایسے میں بازاروں پر پابندی ہونا نہ ہونا برابر ہی تھا.
اگر مارکیٹیں بند بھی کر دی جاۓ تو کیا عوام کے پاس اتنا سرمایا موجود ہے کہ کچھ دن بھی گزارا ہوسکے. ہمارے ملک کی تقریباً 24 فیصد آبادی نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے جنہیں عام حالات میں بھی دو وقت کا کھانا تک میسر نہیں.
یا تو یہ وجوہات لوگوں کے ذہن کے پردے پر ابھرتی نہیں یا وہ انہیں جاننا اور سمجھنا نہیں چاہتے. بلکہ اس فیصلے کو بھی حکومت کے گزشتہ فیصلوں کی طرح تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں.
ہم میں سے کتنے لوگ کورونا کے اس وبائی مرض میں حکومت کے پیش پیش ہیں؟ کتنے لوگ ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوۓ ویکسینیشن کروا چکے ہیں؟ اب تک صرف 9.8 فیصد لوگوں نے ہی ویکسین لگوائی ہے. کچھ کا موقف ہے کہ ویکسینیشن کروانے سے جلد موت واقع ہو جائے گی. ایسے لوگوں کا کیا خدا پہ ایمان نہیں کہ زندگی موت تو صرف اسی کے ہاتھ میں ہے.
حکومتی فیصلوں پر تنقید کرنے کی بجائے انکے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ویکسینیشن کرواۓ تا کہ معمول زندگی پھر سے بحال ہو سکے.

Shares: