دین و دنیا کے لئے سب سے خطرناک چیز جھگڑے ہیں جو آدمی کی صلاحیت کو دیمک لگادیتے ہیں ۔

معاشرہ انسانوں کے باہم مل جل کر رہنے کا نام ہے جس میں ہنسی خوشی کے نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ۔ہر انسان کامزاج اللہ تعالیٰ نے مختلف بنایا ہے ۔ایک دوسرے کے ساتھ رہنے یا معاملہ کرنے میں اونچ نیچ ہوجاتی ہے جو بعض اوقات جھگڑے کی شکل اختیار کرجاتی ہے ۔

زندگی کو پرسکون بنانے کیلئے شریعت میں ایسے مواقع پر ہمیں جھگڑوں سے بچنے اور صلح صفائی کیساتھ معاملہ کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور اکرم ﷺ کی رسالت کے کے امین مسلمان جنہوں نے پوری دنیا کی قیادت کرنی تھی ہماری زبوں حالی کا یہ حال ہے کہ آج ہم گھریلو خاندانی کاروباری چھوٹے بڑے جھگڑوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔

ایک حدیث میں حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جو جو نماز، روزے اور صدقہ سے بھی افضل ہے؟ 

جھگڑے دین کو مونڈنے والے ہیں۔یعنی مسلمانوں کے درمیان آپس میں جھگڑے کھڑے ہوجائیں فساد برپا ہوجائے ایک دوسرے کا نام لینے کے روادارانہ رہیں، ایک دوسے سے بات نہ کریں، بلکہ ایک دوسرے سے زبان اور ہاتھ سے لڑائی کریں ۔یہ چیزیں انسان کے دین مونڈدینے والی ہیں ۔

ہماری وہ صلاحیت جو خدمت دین میں صرف ہوتی تھیں وہ آج باہمی جھگڑوں کی نذر ہورہی ہیں ۔آج ہمارے معاشرے میں جھگڑوں کی شرح کس قدر ہے اس کا اندازہ حضرات مفتیان کرام سے پوچھے جانیوالے روزمرہ کے سوالات سے لگایا جا سکتا ہے یا وکلاء کے لفافوں میں زیرسماعت مقدمات کو دیکھا جاسکتا ہے ۔

بے صبری اورجلد بازی ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے جس کا مشاہدہ آئے دن سڑکوں اور بازاروں پر کیا جاسکتا ہے ۔معمولی کوتاہی یا رنجش پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہوجاتے ہیں ۔صاحب زور مارپیٹ کرکے اپنی آگ بجھا دیتا ہے تو زبردست گالم گلوچ کرکے دوسرے کی عزت نیلام کررہا ہے ۔

یوں معمولی رنجش پر جھگڑوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ہماری عدالتوں، کچہریوں اور تھانوں میں مقدمات کی بہتات ہمارے قومی مزاج کی آئینہ دار ہے ۔خاندانی یا کاروباری جھگڑوں کے حل کیلئے اگر انگریزی قانون کا سہارا لیا جائے تو عمریں بیت جاتی ہیں لیکن انصاف ملنا مشکل ہے ۔

خدابیزار قوموں کے بنائے ہوئے اصول وقوانین سے ایک خدارسیدہ مسلمان کو کب اور کہاں انصاف مل سکتا ہے کاش قیام پاکستان کے بعد حقیقتاً قرآن وحدیث کی بالادستی ہوتی اور یہ ملک کلمہ طیبہ کی عملی تصویر پیش کرتا ۔

لیکن ان حالات میں بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں نہیں، ہر وقت ہر جگہ ایسے بزرگ خدارسیدہ علماء حضرات موجود ہیں ۔جن کی خدمت میں حاضر ہو کر ہر مسلمان دینی اور اخروی مشکلات کیلئے دعا اور جھگڑوں میں تصفیہ کراسکتا ہے ۔

حدیث شریف میں جھگڑا چھوڑنے کی یہاں تک فضیلت آئی ہے کہ جو شخص باوجود غلطی پر ہونے کے پھر بھی جھگڑا چھوڑ دے تو اسے جنت کنارے میں جگہ ملنے کی بشارت ہے ۔

جن لوگوں نے جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے اپنا جائز حق بھی چھوڑ دیا اللہ تعالیٰ نے انہیں ضائع نہیں کیا بلکہ اس حق کا بدل نعم البدل کی صورت میں عطا فرمایا ۔

ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے اپنی کروڑوں کی جائیداد کے سلسلہ میں دس سال تک مقدمہ لڑا ۔لیکن انصاف نہ ملا بالآخر بزرگوں کے مشورہ پر مقدمہ سے دستبردار ہوگئے اللہ تعالیٰ نے سکون کی ایسی دولت بخشی جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔

اس لئے اپنی دنیا کو پرسکون اور آخرت کو سنوارنے کیلئے جھگڑوں سے بچا جائے اور صبر اوردرگزر کرنا مسلمانوں کا دینی واخلاقی شیوہ ہے ۔جھگڑوں کو چھوڑیئے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجئے ۔

اپنا حق معاف کیجئے اور دوسروں کے حق ادا کرنے کی فکر کیجئے پھر دیکھئے کیسی پرلطف زندگی گزرتی ہے ۔

یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ روزانہ کچہریوں کے چکر لگ رہے ہیں اور خدا کے دشمن انگریز کے قانون سے انصاف کی بھیک مانگی جارہی ہے بھلا مسلمان کو دشمن خدا سے انصاف ملے گا ۔

Twitter | @AdnaniYousafzai

Shares: