اسلامی دنیا میں اگر کوئی ایک ملک امریکی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے تو وہ ترکی ہے اس کی حالیہ مثال پچھلے دنوں میں آپ کے سامنے آئی امریکہ نے اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو ترکی نے اسرائیل سے اپنے ڈپلومیٹک تعلقات توڑ دیے ترکی نہ ہی کوئی ایٹمی ملک ہے اور نہ ہی اس کے پاس کسی قسم کے کوئی ایٹمی ہتھیار ہیں ہیں مگر باوجود اس کے اس کا شمار دنیا کی چند بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے ترکی کی سب سے بڑی قوت اس کا جغرافیہ ہے کیونکہ ترکی یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں کے درمیان میں واقع ہے اور درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے وہ دونوں براعظموں کا دروازہ بن چکا ہے ترکی کے اس جغرافیائی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ روس اور امریکہ دونوں ہی یہ چاہتے ہیں کہ ترکی میں ان کے ساتھ رہے اور اس چیز کو ترکی اچھی طرح جانتا ہے مگر یہی جغرافیہ ترکی کے لئے سب سے بڑی مصیبت بھی ہے کیوں کہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہر سال ایشیا سے یورپ جانے کے لیے ترکی میں آ جاتے ہیں جو ترکی کی کے لیے بڑا معاشی چیلنج کھڑا کر دیتا ہے ترکی یورپی یونین کا حصہ بننا چاہتا ہے ہے مگر اس کا جغرافیا اس کی بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ یورپی یونین میں آنے والے ہر ملک کے لوگ دوسرے ملک میں بغیر ویزے آسانی سے آ جا سکتے  ہیں اگر ترکی یورپی یونین میں شامل ہو جاتا ہے تو ہر سال ایشیا سے آنے والے لاکھوں تارکین وطن بآسانی یورپ چلے جائیں گے جو کہ ممکن نہیں ہے اس لیے ترکی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود یورپی یونین اسے اپنا رکن بنانے سے انکاری ہے معاشی لحاظ سے ترکی 863 ارب ڈالر کے ساتھ دنیا کی سترویں بڑی معاشی طاقت ہے ترکی کے جی ڈی پی کا زیادہ انحصار سیاحت پر ہے ایک اندازے کے مطابق ہر سال ستر لاکھ سیاح ترکی کا رخ کرتے ہیں ترکی کی فوجی اہمیت اور بھی زیادہ ہے ترکی دنیا کی آٹھویں بڑی فوجی طاقت ہے جب کہ پاکستان تیرویں بھارت پانچویں اور چین تیسری بڑی طاقت ہے نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے کوئی بھی ملک ترکی کو نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کو مغربی فوجی اتحاد نیٹو سے بھی جنگ کرنے پڑے گی اور یہاں یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ نیٹو اتحاد میں امریکہ کے بعد دوسری بڑی فوج بھی ترکی کی ہے اور اس کی تعداد 4 لاکھ دس ہزار ہے امریکی پابندیوں کے باوجود ترکی نیٹو اتحاد کا واحد ایسا ملک ہے جو روس سے جدید ہتھیار اور ریڈارسسٹم خرید رہا ہے ترکی مسلمان ملکوں میں بھی خاص اہمیت رکھتا ہے ہے جب امریکی صدر  نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے مسلم ممالک کا ایک اجلاس بلایا اور بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دے دیا ترکی کے اس اقدام نے مسلمانوں کے دل جیت لیے تھے ترکی میں دو بڑے اہم مسائل ہیں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ترکی میں رہنے والے کرد اقلیت کے لوگوں نے آزادی کی تحریک شروع کردی ہے ان لوگوں نے ترکی کی سرحد کے ساتھ ساتھ شام اور عراق میں بھی اپنے اڈے قائم کر لیے ہیں ترکی نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے شام کے شمالی علاقے پر قبضہ بھی کیا ہوا ہے اور عراق میں بھی ترکی کی فوج داخل ہوچکی ہے اسی فوجی مداخلت کی وجہ سے ترکی کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ترکی کا دوسرا بڑا مسئلہ یورپی یونین اور امریکہ سے خراب تعلقات ہیں اس وقت صورت حال یہ ہے ہے کہ ترکی تیزی سے روس ایران پاکستان کے قریب ہو رہا ہے قطر اور ایران سے بھی اس کے اچھے تعلقات ہیں تاہم شام عراق اسرائیل سعودی عرب یمن یونان سائپرس اور امریکہ سے اس کے تعلقات کافی حد تک ک خراب ہو چکے ہیں یوں دیکھا جائے تو ترکی اپنے جغرافیائی لحاظ معاشی ترقی نیٹو کی رکنیت اور فوجی طاقت کی وجہ سے دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے ہے تاہم کرد کی بغاوت امریکا اور یورپ سے مسلسل کشیدہ تعلقات اور ہمسایہ ممالک کی بگڑتی صورتحال نے ترکی کے لیے بہت سارے چیلنج پیدا کر دیے ہیں

Twitter id:    @Ali_AJKPTI
https://twitter.com/Ali_AJKPTI?s=09

Shares: