صحافت اور سیاست  تحریر: ثمرہ اشفاق

0
79

صحافت اور سیاست بنیادی طور پر دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے یکسر مختلف شعبے ہیں۔

سیاست کا مقصد اقتدار میں آ کر خدمت خلق ہے اور عوام کے پیسے کے جائز استعمال سے عوام ہی کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔

جبکہ صحافت کا مقصد باوثوق ذرائع سے حقائق عوام تک پہنچانا،اور چھان بین کر کہ سچ کو جھوٹ سے الگ کرنا ہے۔بیشر جرائم اور عوامی دولت میں خرد برد پر اداروں کو جھنجھوڑنا بھی صحافی کے فرائض میں شامل ہے۔

لیکن سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔صحافت کے بغیر سیاست ممکن نہیں اور سیاست کے بغیر صحافت،

سیاستدان صحافیوں کے کڑے سے کڑے سوالات کے جوابدہ ہوتے ہیں اور اپنا یا اپنی سیاسی پارٹی کا موقف میڈیا کے ذریعے بآسانی عوام تک پہنچاتے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے آج کل پاکستان میں سیاست اور صحافت کو الگ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

صحافت کا لبادہ اوڑھے چند صحافی حکومتی جب کہ چند اپوزیشن کے ترجمان بنے دکھائی دیتے ہیں۔جن کا مقصد صرف اور صرف چند سیاسی پارٹیوں کی ترجمانی کرنا اور حقائق توڑمروڑ کر پیش کرنا ہے۔کسی بھی سیاسی شخص کی کوئی بھی ذاتی یا سیاسی زندگی کے حوالے سے آنے والی خبر کا سب سے پہلے دفاع کیا جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کی متنازع ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سب سے پہلے چند صحافیوں نے ان کا دفاع کرتے ہوئے اس کے غلط ہونے کی خبر دی۔گو کہ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے انہیں بھرپور تنقید کا سامنا کرنا پڑا مگر صحافی سیاستدانوں کی چمچہ گیری سے باز نہیں آتے۔

ایسے ہی کئی صحافی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحافت کو خیر آباد کہہ کر سیاست میں قدم رکھ لیتے ہیں۔اور انہیں مختلف سیاسی عہدوں سے نوازا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس کا آغاز پچاس کی دہائی میں ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر الطاف حسین نے کابینہ میں شامل ہو کر کیا۔ بھٹو مرحوم کے دور میں انگریزوں اخبار سے وابستہ ایک اور صحافی نسیم احمد وفاقی سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے اور اور اس منصب پر فرائض سر انجام دیتے رہے اسی دور میں مرحوم کوثر نیازی وزیر حج اور اطلاعات رہے جب کہ حنیف رامے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔

آج کل اس سلسلے نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے،صحافیوں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگیاں بڑھتی جا رہی ہیں،جس کے لئے وہ اپنے پیشے سے بھی بے ایمانی کرتے ہوئے جھوٹ اور سچ میں تفریق نہیں کرتے،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب اقتدار کے مزے سیاستدان لوٹتا ہے تو ان نام نہاد صحافیوں کو بھی اس میں حصہ دیا جاتا ہے۔

سرکاری دوروں میں من پسند صحافیوں کو ساتھ لے جانا ہو یا چیئرمین پیمراو پی سی بی کے عہدوں سے نوازنا ہو، عوام کے پیسے کی تباہی میں ان نام نہاد صحافیوں نے بھی ہاتھ دھوئے ہیں جس کا قرض وہ آج تک اپنے قلم یا اپنی زبان سے ان کے ترجمان بن کر ادا کرتے ہیں۔

چند غیر جانبدار اور پائے کے صحافیوں کو اب آگے آنا ہو گا اور اپنے اس پیشے کو بد نامی سے بچانا ہو گا،صحافت کا لبادہ اوڑھے ان کالی بھیڑوں کو پہچانیں اور انہیں بے نقاب کریں تا کہ آئندہ ہر صحافی غیر جانبدار ہو کر حقائق عوام کے سامنے رکھے۔سیاسی جماعتوں کاموقف لیا جائے لیکن صرف ایک سیاسی جماعت کا دفاع اور دوسری پر تنقید ایک صحافی کی صحافت کو متنازع بنا دیتی ہے۔اب گنے چنے چند ایک ناموں کے علاوہ ہر صحافی متنازع بن چکا ہے۔نامور صحافیوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے اور اس پیشے کو سیاست میں آنے کی آسان سیڑھی بننے سے روکنا چاہئے۔

@sam_rahmughal

Leave a reply