ارشاد باری تعالٰی ہے
وَلَقَدۡ مَكَّنَّٰكُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَجَعَلۡنَا لَكُمۡ فِيهَا مَعَٰيِشَۗ قَلِيلٗا مَّا تَشۡكُرُون°
"اور بے شک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق پیدا کیا، تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔”
سورة الأعراف 10
موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو حکومت سنبھالے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ ملک کے چھوٹے بڑے کاروباری تاجر حضراتئ حتی کہ گلی محلے کے پرچون فروشوں نے ناجائز منافع خوری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر چیز کو مہنگا بیچنے کے لئے یہ تکیہ کلام بنا لیا کہ ” جی کیا کریں تبدیلی ہے ” اور اسے ساتھ ہی 10 روپے مہنگی چیز گاہک کے ہاتھ میں تھما دی اور گاہک نے بھی آگے سے دو گالیاں حکومت کو دے کر بخوشی مہنگے داموں خریدرای کر لی۔
دکانداروں کے ساتھ ہی اپوزیشن نے بھی اپنے سیاسی مقاصد و عزائم کے لئے بہت مہنگائی ہے کی گردان شروع کر دی اور اس کے ساتھ ہی سیاسی اپوزیشن جماعتوں نے میڈیا کا بھرپور استعمال کیا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ہیڈلائنز اور شہ سرخیوں میں اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا پراپیگنڈا اتنے منظم انداز سے کیا گیا کہ رائے عامہ پختہ ہوگئ کہ اس حکومت نے بہت مہنگائی کر دی ہے۔
اگر ہم پاکستان کی آٹو موبائل انڈرپاسز کی مالی سال 2020-21 کے لئے پروڈکشن و فروخت کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ 1 لاکھ 51 ہزار کاریں، 4 ہزار 3 سو ٹرک اور بسیں، 11 ہزار 3سو لینڈ کروزر اور دیگر لگژری جیپیں، 18 ہزار 9سو لوڈر پک اپس ، 50 ہزار 9 سو ٹریکٹرز اور موٹر سائیکل انڈسٹریز نے 19 لاکھ 39 ہزار موٹرسائیکلیں فروخت کیں۔
موبائل فون کی بات کریں تو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے 186 ملین افراد موبائل فونز استعمال کر رہے ہیں جن میں سے 103 ملین افراد کے پاس سمارٹ فونز ہیں اور وہ 3 جی اور 4 جی سروسز استعمال کر رہے ہیں۔
اب اگر اشیاء خوردو نوش کی بات کریں تو ان اشیاء کی قیمتوں کا تعلق ڈیمانڈ سپلائی اور سیزن سے ہوتا ہے۔ مرغی کی قیمتوں میں اضافہ کا سبب زیادہ ڈیمانڈ اور سپلائی کم ہونے کے ساتھ جڑا ہے جیسے ہی محرم الحرام رمضان المبارک اور شادی بیاہ کا سیزن عروج پر ہوتا ہے مرغی کی قیمت آسمان سے بات کرتی ہے اور جیسے ہی سیزن ختم ہوتا ہے مرغی 160 سے لے کر 190 تک فروخت ہو رہی ہوتی ہے یہی حال پھلوں اور سبزیوں کا ہے شروع سیزن میں مہنگی اور درمیان میں سستی ہوجاتیں ہیں جیسا کہ آجکل اچھا کیلا 60 روپے درجن انار 200 اور سیب 150 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے ایسے ہی سال میں کبھی ٹماٹر 400 روپے اور کبھی گدھا گاڑیوں ریڑھیوں پر 40 روپے کلو فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں چینی کی قیمت پر اتنی گفتگو کی جاتی ہے جیسے کہ ہر شخص دن میں 3 اوقات صرف چینی کے ہی پھکے مارتا ہے ۔جبکہ ایک اوسط گھر کی ضرورت صرف 6 سے 8 کلو چینی ماہانہ ہوتی ہے ۔چینی کو بطور سیاسی ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے اور مصنوعی قلت سے بحرانی صورتحال پیدا کرکے حکومت کو ٹف ٹائم دیا جاتا ہے۔
حکومت نے لوگوں کےگوداموں سے لاکھوں بوریاں چینی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں سے برآمد بھی کی گئی ہیں ۔
اب آجائیں آٹا کی قیمتوں پر موجودہ حکومت نے کسان کے مسائل کو دیکھتے ہوئے گندم کی سرکاری خریدرای قیمت میں اضافہ کیا جس سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہونا ہی تھا اس پر شور کیوں کیا سارا سیزن گندم کی فصل کی آبیاری کرنے والے کسان سے مفت ہی گندم لے لی جائے کیا کھیت سے گندم مفت ہی منڈیوں تک آ جاتی ہے کیا فلور ملز اور چکیوں پر کام کرنے والے مزدور اور مالکان بلا معاوضہ کام کرتے ہیں نہیں تو پھر اسی آٹے کی فی کلو قیمت سے ہی ان تمام طبقات کا رزق وابستہ ہے اس لئے آٹے کی قیمت میں اضافہ فطری سی بات ہے ان سب کے باوجود حکومت سبسٹڈی دے کر قیمتوں کو عام صارفین کے لئے مناسب رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
پٹرول کی قیمتیں اس وقت عالمی منڈی میں بلند ترین سطح پر ہیں دنیا کے تمام ممالک میں پٹرول اوسطا 20۔1 ڈالر فی لیٹر کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے ۔جبکہ پاکستان میں صرف 127 روپے فی لیٹر پر فروخت کیاجارہا ہے جو کہ دیگر تمام (سوائے تیل پیداکرنے والے) ممالک کی نسبت کم ترین قیمت ہے۔
سیاسی اپوزیشن جماعتوں رہنما جب ہاتھوں میں مہنگا ترین موبائل لگثری برانڈ کے کپڑے اور جوتے پہن کر مہنگائی مہنگائی کرتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ منافقت ہو رہی ہے۔
زیادہ مہنگائی صرف لوئر کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لئے تو کہی جاسکتی ہے جن کے ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان طبقات کے لئے موجودہ حکومت نے احساس پروگرام کی چھتری تلے درجنوں پروگرام جاری کر رکھ ہیں جن سے لاکھوں خاندان فائدہ حاصل کر رہے ہیں اور جگہ جگہ وزیر اعظم عمران خان کے کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام کے تحت لنگر خانے اور پناہ گاہیں قائم ہیں جہاں پر روزانہ ہزاروں افراد کھانا کھاتے اور رات بسر کرتے ہیں۔ باقی کچھ مہنگائی اگر ہے بھی تو وہ اس وقت دنیا بھر کے لئے ہے مسلسل کرونا وبا نے ساری دنیا کو متاثر کیا ہے اور تمام ممالک میں مہنگائی عروج پر ہے لیکن اس سب کے باوجود دنیا کے معتبر ادارے پاکستانی معیشت مستحکم اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئی قرار دے چکے ہیں۔ اور پاکستان کو رہنے اور زندگی بسر کرنے کے لیے سستا اور موضوع ترین ملک کا درجہ حاصل ہے۔ اللہ سبحان و تعالی نے ہمیں اور ہمارے ملک کو بےشمار نعمتوں سے نوازا ہے ہمیں کسی بھی پراپیگنڈا سے متاثر ہوکر کفران نعمت کی بجائے شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ سبحان و تعالی کا فرمان ہے کہ شکر کرنے والے کو مزید عطا کیا جاتا ہے اور ناشکری کرنے سے نعمتیں چھن بھی جاتی ہیں۔ @EducarePak







