اتنی مہنگائی۔۔زرا رحم سرکار تحریر:سیدہ ذکیہ بتول۔

0
38

وقت وہ آگیا ہے کہ کچھ بھی خریدنے جائیں اور صرف یہ بول دیں "بھائی اتنی مہنگا کیوں دے رہے ہو” اگلا پوری بتیسی دکھا کر کہتا ہے” نیا پاکستان ہے سرکار” جیسے نئے پاکستان کی تعمیر میں اینٹ رکھ کر ساری غلطی صرف خریدار نے کی۔ مہنگائی بھی تو بریک پر پاؤں ہی نہیں رکھ رہی اب پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں ہیں ایک لیٹر پٹرول تقریباً ایک سو اٹھائیس روپے میں ملے گا یہ خبر سنتے ہی عوام کے تو پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی کیونکہ جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو مہنگائی کی شرح بھی تیزی سے اوپر جاتی ہے اور پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی دہائیاں نئے پاکستان کے درو دیوار سے ٹکرا رہی ہیں ڈالر کی اونچی اُڑان بھی جاری ہے مگر قیمتیں ہر بار بڑھا کر وزیروں کو دفاعی مورچوں پر بٹھا کر رٹا رٹایا سبق دہروایاجاتا ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھی ہیں اسلیے پاکستان بھی مجبور ہے جبکہ کچھ تو دھڑلے سے یہ بھی فرما جاتے ہیں کہ ابھی بھی گراف میں ہماری قیمتیں دوسرے ممالک کی نسبت کم ہیں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ موازنہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب پاکستان کی معیشت میں شرح نمو مستحکم نہیں تو دوسری جانب پاکستان میں آمدنی کے ذریعے بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔جبکہ موازنہ کرتے وقت قوت خرید کتنی ہے اس بات کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

نئے پاکستان میں پرانے وزیر سارے ہی اتنے ایکسپرٹ ہوچکے ہیں کہ نہ وہ چبھتے سوالوں پر کچھ سوچتے ہیں نہ عوام کی چیخوں سے ان کی روزی روٹی ہر اثر پڑتا ہے بلکہ مکمل اعتماد کے ساتھ ٹوئٹر کا سہارا لیکر مہنگائی پر اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں عوام کو الجھا کر سمجھتے ہیں کہ اس بار تو بلا ٹلی۔وزیر خزانہ کا ایک بیان نظر سے گزرا جسمیں وہ قیمتوں میں پاکستان اور برطانیہ کا موازنہ فرماتے ہیں کہ وہاں مہنگائی یہاں کے مقابلے میں اکتیس فی صد زیادہ ہے یعنی ہم قیمتوں میں ابھی برطانیہ سے بہت پیچھے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر صاحب فہرست میں وہ شعبے بھی گنوا دیتے جس میں ہم واقعی میں برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہیں۔۔اگر وہاں مہنگائی ہے تو عام آدمی کو سہولیات بھی میسر ہیں وہاں ٹیکس کے بدلے باسیوں کو دھکے نہیں ملتے وہاں صحت تعلیم جیسی سہولیات کے حصول لیے لوگوں کو اپنے زیور اور گھر گروی نہیں رکھنے پڑتے برطانیہ میں اگر پٹرول مہنگا ہوا تو وہاں نعم البدل بہترین اور سستی ٹرانسپورٹ موجود ہے وہاں کا انفرا اسٹرکچر عوام کو ذہنی کوفت میں مبتلا نہیں کرتا اُدھر یوٹیلیٹی بِلوں میں دنیا جہان کے سمجھ سے عاری ٹیکسز لگا کر نہیں بھیجے جاتے وہاں گرمیوں میں بجلی کی بد ترین لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی اُدھر  نلکوں میں پانی آتا ہے نہ کہ لوگوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے مہنگے ٹینکرز خریدنے پڑتے ہیں وہاں سردی میں عوام کو گیس میسر ہوتی ہے ۔۔

اب اپنے ملک پر نظر دہرائیں بد قسمتی سے  اکیسویں صدی میں بھی ہماری عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہے تعلیمی نظام دیکھیے جہاں دنیا ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے جدید تعلیم کے حصول کو طلبا تک پہنچانے میں مصروفِ عمل ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی سے نئی منازل طے کرنے کی طرف گامزن ہے وہیں ہم منافقانہ طرزِ سیاست کو تعلیمی میدان میں بھی گسیڑ لائے ہیں یکساں تعلیمی نظام کا نعرہ لگا کر عجیب و غریب اور مبہم نظام کو فروغ دے رہے ہیں اگر واقعی یکساں تعلیمی نظام کو رائج کرنا تھا تو ابھی بھی میٹرک اور ایف اے کے ساتھ اے لیول اور او لیول کے آپشنز کیوں موجود ہیں سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار کو بہتر بنانے کے بجائے پرائیوٹ اسکول مافیا کو کھلی چھٹی کیوں دے رکھی ہے کون سے یکساں تعلیمی نظام کا نعرہ لگایا جارہا ہے ہے اب بھی کئی پرائیوٹ اسکولز میں نرسری کی ماہانہ فیس پچاس ہزار ہے پھر کیسا فرق ختم کیا جارہا ہےکیا ہمارے سرکاری اسکولوں کا وہ معیار ہے جہاں بچہ نئی دنیا کے اصولوں کے مطابق تعلیم حاصل کر سکے؟ پھر مجبوراً والدین پرائیوٹ اسکولوں کی بھاری فیسیں ادا کر کے بچے پڑھاتے ہیں۔جبکہ آکسفورڈ اور کیمبرج کا سلیبیس ختم کر کے بچوں کو دنیا کے ساتھ چلنے سے روک دیا گیا ہے۔بنیاد کے ٹیڑھے پن کو ختم کرنے کے بجائے اوپر سے لیپا توپی کرنے سے نظام مزید بگاڑ کی طرف جائے گا جبکہ در حقیقت ابھی بھی دو نظامِ تعلیم موجود ہیں۔ دوسری طرف صحت کارڈز کو صحت کے میدان میں ترقی گردانا جارہا ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں کا کیا حال ہے سب جانتے ہیں جہاں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بھی کچھ نہیں بن پاتا تو آخری آپشن پرائیویٹ ہسپتال ہی بچتا ہے ادویات مافیا کو نتھ ڈالنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے آئے دن یہ مافیا دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتا ہے ایک غریب آدمی سرکاری ہسپتال جاتا ہے تو اسے دوائیوں کی پرچی پکڑا دی جاتی ہے پھر وہ ادویات مافیا کے کرتے دھرتوں سےنہ گی دوائیاں خرید کے بیماری سے کرنے کی کوشش کرتا ہے بجلی کے بل دیکھیے جہاں آج بھی آئی پی پیز کے قرضےاتارنے کے لیے بھاری ٹیکسوں سے عوام کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے پالیسیاں حکومتوں کی اور بھگتیں عوام پٹرول کی قیمت بڑھتے ہی کرایوں میں اضافہ آٹا دال چینی سبزی سب کچھ مہنگا کر دیا جاتا ہے جبکہ بجٹ میں عوام کو سبسڈی صرف بجٹ دستاویز تک محدود ہوتی ہے تنخواہوں میں دس فی صد اضافہ جبکہ مہنگائی میں سو گنا بڑھوتی۔۔اب سوال حکومت سے ہے کہ جو بندہ مہینے کے بیس سے پچیس ہزار کماتا ہے وہ گھر کا کرایہ دے بچوں کے اسکولوں کی فیس ادا کرے بجلی کے بھاری بل بھرے دال سبزی پوری کرے سواری کے خرچے پورے کرے؟ کوئی ایک وزیر ایسا سامنے آئے جو پچیس ہزار میں مہینے کا بجٹ بنا دے تو مان جائیں کہ واقعی انہیں ستر سال بعد نیا پاکستان ملا ہے جہاں سانسیں گھُٹتی نہیں چلتی ہیں۔

پاکستان زرعی ملک ہے مگر ہم آج بھی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں ملک فوڈ سیکورٹی والے حالات کی طرف جارہا ہے مگر بد قسمتی سے ہم اپنے ذرائع کو نہ ہی بہتر طور پر دریافت کر پاتے ہیں اور نہ ہی انکا استعمال ممکن کرنے کے لیے کوئی جامعہ حکمت عملی کی طرف جاتے ہیں۔مہنگی کمپنیوں پر دارو مدار کے بجائے کوئلہ،شمسی توانائی اور کوڑے تک سے بجلی پیدا کرنے کے آپشنز موجود ہیں انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنا کر عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے پورے ملک میں سستی ٹرانسپورٹ کے پراجیکٹس شروع کر کہ مہنگے پٹرول ڈلوانے سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے زرعی شعبے میں اصلاحات لاکر گندم چینی اور دوسری فصلوں میں خود کفیل ہوا جاسکتا ہے۔۔کسانوں کو آسان قرضوں کی فراہمی سے کسان خوشحال ہوگا تب پیداوار میں اضافہ ممکن ہے  پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی تشکیل ضروری امر ہے مختلف چھوٹے بڑے شہروں کی انتظامیہ پر نگرانی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ وہ کس حد تک مستعدی سے ذخیرہ اندوزوں کی بیخ کنی میں پیش پیش ہے وہ لوگ جو من مانی قیمتوں کا تقاضہ کرتے ہیں ان سے کیسے نمٹا جارہا ہے کیونکہ کوئی ایک پروڈکٹ دس قدم پر واقع دکان میں کسی اور قیمت پر بک رہی ہوتی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں موجودہ حکومت بھی پچھلے حکمرانوں کی طرح بنیادی ڈھانچے کی از سر نو تشکیل کے بجائے بگاڑ پر مبنی پالیسیز کو آگے بڑھائی چلی جارہی ہے ایسے نیا پاکستان بنے نہ بنے نئے مسائل میں عوام ضرور دھنستی چلی جائے گی۔۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے خاندانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے بھیک پیشہ ور مانگتے تھے اب اچھے خاصے معزز لوگ ہاتھ پھیلانے ہر مجبور ہیں کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں ریلیف عوام کو دیا جارہا ہو۔ پچھلی حکومتوں سے چھٹکارا حاصل کر کہ پاکستان تحریک انصاف کو اکثریتی ووٹ اسلیے پڑا تھا کہ واقعی عوام تبدیلی چاہتی تھی ایسی تبدیلی جہاں کرپشن سے پاک پاکستان ترقی کی جانب رواں دواں ہو جہاں پرانی اور بے کار حکومتی پالیسیوں کو جڑ سے اُکھاڑ کر ایسی بنیادیں ڈالی جائیں جسکی ہر اینٹ عوام کو ریلیف دے جہاں غربت کا خاتمہ ممکن ہو جہاں معیارِزندگی بہتر ہوسکے  جہاں روزگار کی فراہمی ہو اپنی چھت ہو نہ کہ یہ سہولیات صرف انتخابی منشور تک محدود ہوں۔ابھی بھی وقت ہے دو سال کا عرصہ موجود ہے اور کچھ نہیں تو عوام کی زندگی آسان بنانے کے لیے مہنگائی کی عفریت کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکتا ہے ورنہ مہنگائی اور غربت کے تانے بانوں میں الجھی عوام کم از کم  اگلا موقع پاکستان تحریک انصاف کو  نہیں دے گی۔

Leave a reply