پاکستانی معیشت پر جاری ورلڈ بینک کی رپورٹ پر وزارت خزانہ کا رد عمل

0
87

وزارت خزانہ کی جانب سے پاکستانی معیشت پر جاری ورلڈ بینک کی رپورٹ پر ردعمل سامنے آیا ہے۔

باغی ٹی وی : تفصیلات کے مطابق وزات خزانہ کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی سےمتعلق ورلڈبینک کا تخمینہ غیرحقیقی ہے عالمی بینک کامعاشی شرح نمو 3.4 فیصدرہنےکا تخمینہ غلط ہے۔

موجودہ مالی سال پاکستانی معیشت 5فیصدسےترقی کرےگی۔ جولائی میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 2.3 فیصدبہتری آئی۔گنے،چاول،مکئی،کپاس کی فصل میں بہتری کاتخمینہ ہے

ایف آئی اے کا صدر میں چھاپہ

زرعی شعبےمیں شرح نمو 2.8 فیصدہے۔ صنعت کےشعبےمیں شرح نمو 3.6 فیصدہے۔ خدمات کےشعبےمیں شرح نمو 4.4 فیصدہے۔گندم کی پیداوار 2 کروڑ 75 لاکھ ٹن رہی۔مکئی کی پیداوار 89 لاکھ ٹن رہی۔مختلف شعبوں میں حکومتی اقدامات کےمثبت نتائج برآمدہورہےہیں، مراعاتی پیکج سےصنعتی سرگرمیاں تیزہورہی ہیں، معیشت کی بحالی کاعمل تیزی سےآگےبڑھ رہاہے۔

شہر قائد میں برائلر مرغی کے گوشت کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی

عوام کوسستےبازاراوریوٹیلیٹی اسٹورزپرسستی اشیاءفراہم کی جارہی ہیں مہنگائی میں کمی کیلئےاقدامات جاری ہیں ایک سال میں چینی کی عالمی قیمت میں 53.6 فیصداضافہ ہوا، مقامی سطح پرچینی 13.5 فیصدمہنگی ہوئی۔

پام آئل 48.4 اورسویابین 54.4 فیصدمہنگاہوا، کوکنگ آئل 37.3،گھی کی مقامی قیمت میں 40.7 فیصداضافہ ہوا ۔ گندم کی عالمی قیمت میں 20 فیصداضافہ ہوا پاکستان میں آٹا 19.3 فیصد مہنگا ہوا۔

معیشت کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور سود سے چھٹکارا پہلی شرط ہے، سراج الحق

خام تیل کی عالمی قیمت ایک سال میں 81.5 فیصد بڑھی پاکستان میں پٹرول 16.5،ڈیزل 10.8 فیصد مہنگا ہوا۔

دوسری جانب امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا تھا کہ معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور سود سے چھٹکارا پہلی شرط ہے۔ کرپشن کا خاتمہ اور ملکی وسائل کو غریبوں پرصرف کیا جائے۔ حکمران اشرافیہ نے کرپشن اور بدعنوانی سے مال بنایا۔ حکومت مافیاز کے نرغے میں ہے۔ کرپٹ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو ایک پائوں غریبوں کی گردنوں پر اور دوسرا اقتدار کے ایوانوں میں ہے۔
ایسے لیڈرز چاہییں جو ملک کو خودانحصاری کے راستے پر ڈال سکیں۔ تینوں بڑی جماعتیں مفادات کی سیاست کر رہی ہیں۔ حکمران پارٹی اور دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کو ملک اور قوم کے مفاد سے کوئی غرض نہیں۔ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے پہلے بھی استعمال کیا جاتا رہا اب بھی یہی روش جاری ہے۔

Leave a reply