زمین کانپ جاتی ہے! تحریر: کائنات فاروق

0
33

گزشتہ دنوں بلوچستان کے علاقے ڈسٹرکٹ ہرنائی میں زلزلے کے خوفناک جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کے نتیجے میں پندرہ سے زائد افراد جاں بحق اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔ 

دیکھا جائے تو پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں اکثر شدید یہ کم زلزلے آتے ہیں۔ زلزلے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا پانچواں حساس ترین ملک بھی ہے۔

پاکستان کا دو تہائی حصہ فالٹ لائنز پر موجود ہے جس کے باعث ان علاقوں میں کسی بھی وقت زلزلہ آ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف بالائی سندھ اور وسطی پنجاب کے علاقے فالٹ لائن پر موجود نہیں، اسی لیے یہ علاقے زلزلے کے خطرے سے محفوظ تصور کیے جاتے ہیں البتہ ان علاقوں کے علاوہ تمام علاقے کسی نہ کسی طرح فالٹ لائن پر موجود ہیں۔

اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم اور چکوال جیسے بڑے شہروں کا شمار زون تھری میں ہوتا ہے، جبکہ کوئٹہ، چمن، لورالائی اور مستونگ کے شہر زیر زمین انڈین پلیٹ کے مغربی کنارے پر واقع ہیں، اس لیے یہ بھی ہائی رسک زون یہ زون فور کہلاتا ہے۔

ساحلی علاقوں کی بات کریں تو کراچی سمیت سندھ کے بعض ساحلی علاقے خطرناک فالٹ لائن زون کی پٹی پر موجود ہیں۔ یہ ساحلی علاقہ تین پلیٹس کے جنکشن پر واقع ہے جس سے زلزلے اور سونامی کا خطرہ موجود ہے۔

زلزلوں کا آنا ان ہی علاقوں میں زیادہ ریکارڈ کیا گیا جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں۔

پاکستان کے تمام شہر کراچی سے لےکر اسلام آباد تک زلزلے سے محفوظ نہیں، البتہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو حساس ترین شمار کیا جاتا ہے۔

اب بات کرتے ہیں دنیا کے مختلف مذاہب کے زلزلے سے متعلق منفرد اور دلچسپ عقائد اور روایات کی۔

مثلاً بعض اقوام سمجھتی تھیں کہ مافوق الفطرت قوت رکھنے والے درندے زمین کے اندر رہتے ہیں اور وہی زلزلے پیدا کیا کرتے ہیں۔ قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویل القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں۔ اس سے کچھ ملتا جلتا عقیدہ ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بھی بڑے کچھوے کی پیٹ پر ٹکی ہے اور اس کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ جب کہ عیسائیوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لیے اجتماعی سزا ہوتی ہے۔

مذاہب کے عقائد سے ہٹ کر اگر فلسفیوں کی بات کریں تو قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کا خیال کچھ منطقی تھا، اس کا کہنا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔ تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے۔ لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ”پلیٹ ٹیکٹونکس”کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔

ہم نے اب تک زلزلوں سے متعلق سائنسی، فلسفی، اور دنیا کے مختلف عقائد کا جائزہ لیا ہے، اب بات کرتے ہیں پاکستان کے سرکاری مہذب اسلام کی۔ مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ زلزلے سے متعلق قرآن کریم کیا کہتا ہے۔

قرآن کریم میں قوم شعیب پر عذاب آنے کا تذکرہ ہے اور اُس کی وجہ قرآن نے ناپ تول میں کمی بیشی بتائی ہے کہ ان کی عادت بن گئی تھی کہ لینے کا وقت آتا تو زیادہ لیتے اور دینے کا وقت آتا تو کمی کردیتے تھے، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ناپ تول میں کمی صرف محسوسات میں نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ معنوی چیزوں میں بھی ہوسکتی ہے مثلا لوگوں کے حقوق کی پامالی، ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں اپنا پورا حق سمیٹ لوں اور جب دینے کا وقت آئے تو مجھے پورا نہ دینا پڑے۔ اگر قوم شعیب پر ناپ تول میں کمی کی وجہ سے عذاب اور زلزلہ آسکتا ہے تو آج حقوق اللہاور حقوق العباد میں کمی بیشی کی وجہ سے زلزلہ آگیا تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْن(الاعراف:۹۱)اسی طرح حضرت موسی کی قوم پر عذاب آیا، حیلے حوالے اور کٹ حجتی کی وجہ سے فَلَمَّا أخذتہم الرجفةُ (پس جب ان کو زلزلے نے آدبوچا اللہ نے ان کو وہیں ہلاک کردیا) (الاعراف:۱۵۵)قارون جو مالداری میں ضرب المثل تھا۔ جب اُس سے کہا گیا کہ ان خزانوں پر ا للہ کا شکر ادا کرو تو کہنے لگا، یہ سب میرے زورِ بازو کا کرشمہ ہے؛ چناں چہ اللہ نے اسے اِس ناشکری کی وجہ سے خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا۔فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْض (القصص: ۸۱)آج اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے کتنے شرعی احکام میں قیل وقال کرنے والے ملیں گے اور کتنے ہی ایسے ملیں گے جن کے احساسات وجذبات قارون کی طرح ہیں۔

یہاں سنن ترمذی کیایک حدیث نقل کی جارہی ہے جس سے زلزلہ کے اسباب کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی۔ جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ باتیں یہ ہیں )۱- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔ ۲- امانت دبالی جائے۔۳- زکاة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔۴- علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔۵- انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔۶-دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔ ۷- مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔۸- قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔ ۹- انسان کی عزت اِس لیے کی جائے؛ تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔۱۰-گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔۱۱- شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔۱۲-بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔ (سنن الترمذی، رقم: ۲۱۱، ما جاء فی علامة حلول المسخ)انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیجیے، مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے، جو اب تک نہیں پائی گئی ہے، مذکورہ ساری پیشین گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہی تمام وجوہات ہوں جن کی وجہ سے "زمین کانپ جاتی ہے، لیکن ہمارے ضمیر نہیں کانپتے”.

@KainatFarooq_

Leave a reply