سانحہ 8 اکتوبر 2005 قیامت صغریٰ تحریر۔ نعیم الزمان

0
51

8 اکتوبر 2005 کا دن ایک المناک دن تھا۔ تین رمضان المبارک بروز ہفتہ  کی  صبح 8 بج کر 52 منٹ پر  آزاد کشمیر سمت پاکستان کے مختلف علاقوں پر ہولناک زلزلہ آیا ۔ جس نے چند ہی منٹ میں بہت سارے شہروں اور دیہات کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ یہ دن قیامت صغریٰ کا مناظر پیش کر رہا تھا۔ جس نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں تباہی مچائی ۔اس زلزلے کا مرکز پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر بالاکوٹ کے قریب تھا۔جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.6 ریکارڈ کیا گیا۔

اس ہولناک زلزلے میں لاکھوں کی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔اربوں روپوں کا املاک کو نقصان پہنچا۔ لاکھوں کی تعداد میں  بوڑھے، جوان ،بچے زخمی ہوئے۔اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ  معذور ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے۔ ہر امیر  اور غریب اس سانحے کا شکار ہوا۔ مال مویشی  گھر سکول کالج ہسپتال تمام سرکاری دفاتر مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔کھانے اور پینے کو کچھ نہیں مل رہا تھا۔ کچھ لمحے کے لیے پانی خشک ہو گے تھے۔اگر کہیں تھوڑی مقدار میں پانی موجود بھی ہوتا تو اس کو نکالنے اور پینے کے لیے برتن موجود نہیں تھا۔ ختہ کے لوگوں نے جوتوں میں پانی پیئا۔ نفسا نفسی کا عالم تھا۔ ہر کوئی اپنے عزیزواقارب کی تلاش میں لگا ہوا تھا۔ کوئی اپنے عزیزوں کی میتں نکالنے میں مصروف تھا ۔ اور کوئی اپنی مدد اپنے تحت ہزاروں من ملبے تلے دھبے  زخمیوں کو نکالنے میں مصروف تھے۔ والدین اپنے بچوں کو سکولز اور کالجز میں ڈھونڈ رہے تھے۔بچےکسی کو زخمی حالت میں ملتے اور کسی کو معذوری کی حالت میں اور کوئی بد قسمت والدین جو اپنے دل کے ٹکڑوں کی میت اٹھائے واپس آئے۔اور اتنا خوفناک منظر تھا کہ کسی کو دوبارہ زندگی کی بہتری کی کوئی امید نہیں تھی۔ کوئی پتہ نہیں تھا کب پھر خوفناک زلزلہ دوبارہ آئے اور سب کچھ ختم ہو جائے۔ زلزلے کے جٹکے وقفے وقفے سے جاری تھے۔ ہر طرف سے چیخو پکارا کی  کی آوازیں سنائی دے رہیں تھیں۔ بچے بھوک سے نڈھال تھے زخمی درد کی شدت سے چیخ رہے تھے۔ کوئی امدادی کارروائیاں شروع نہیں ہوئی تھی۔ اوپر سے شام کے وقت انتہائی شدت سے بارش برسی۔ کسی کے پاس اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ مشکل سے میتوں اور زخمیوں کے اوپر کچھ پٹے پرانے کپڑے  جو گھروں سے باہر پڑے ہوئے تھے وہ گھاس اور لکڑیاں وغیرہ رکھ کر ان کو بھیگنے سے بچایا ۔ مشکلات سے پہلی رات گزاری۔ سردی کی انتہا تھی کیونکہ کے کپڑوں کی قلت تھی  کپڑے مکانون تلے دبے ہوئے تھے۔آگ جلانے کیلے لائیٹر ماچس تک نہیں تھے۔ دوسرے دن  سے امدادی کارروائیاں شروع ہوئی۔  میتوں کی اجتماعی تدفین  کی گئی۔زخمیوں کو امدادی سنٹر تک لایا گیا۔جو زیادہ زخمی تھے انہیں ہیلی کاپٹر تک پہنچایا گیا جو انہوں اسلام آباد اور مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر رہے تھے۔ دو سے تین دن تک ایک جیسی صورت حال کا سامنا رہا۔ اس کے بعد پاک فوج نے تقریباً ہر علاقے میں کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ متاثرین  کو  امداد فراہم کرنا شروع کر دی تھی۔ سڑکیں مکمل تباہ ہو چکی تھے اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرین تک امدادی سامان پہنچنا شروع ہو ا۔ متاثرین میں کھانے پینے کی اشیاء پہنچائی گی۔متاثرین کے لیے اجتماعی کیمپ تیار کیے گئے۔  بعد ازاں بیرونی امداد پہنچنے پر ہر فیملی میں خیمے اور گرم کپڑے وغیرہ تقسیم کیے گئے۔ سردیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔آئے دن متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا تھے۔لیکن افواج پاکستان، عالمی اداروں نے  جس میں سرفہرست ڈبلیو ایف پی، ریڈ کریسنٹ، اسلامک ریلیف، یو این ، یونیسیف اور بہت ساری  مختلف ممالک کی امدادی تنظیموں نے قلیل وقت میں ہر طرح کی امدادی کارروائیاں جاری رکھی۔ متاثرین کو ممکنہ ریلیف فراہم کی۔ مشکل کی اس گھڑی میں دنیا کے تمام ممالک نے امدادی فراہم کی۔آہستہ آہستہ تعمیر نو کا آغاز کیا گیا۔پہلے مرحلے میں شیلٹر ہوم اور گھریلو سامان اور کپڑے فراہم کیے گئے۔ دوسرے مرحلے میں حکومت کی جانب سے  مکانات کیلئے نقد  امدادی رقم فراہم کی گی۔ سکولز اور کالجز اور دیگر سرکاری عمارات کے لیے بھی شیلٹر ہوم فراہم کیے گئے۔ تقریباً چھے سات ماہ کے بعد حالات بہتری کی جانب گامزن ہوئے۔  بچوں نے دوبارہ سکولوں کا روخ کیا۔متاثرہ علاقوں کی از سر نو تعمیر کا آغاز ہوا۔جو بد قسمتی سے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ ایرا اور بہت سارے سرکاری اداروں کے گپلے کی وجہ سے بہت ساری سرکاری عمارات ابھی تک تعمیر نہ ہو سکی۔  زندگی کو معمول پر آنے میں دو سے تین سال لگے۔زندگی ایک بار پھر مسکرائی۔ 8 اکتوبر 2005 کو  آج بھی ہر سال یاد کیا جاتا ہے۔لوگ اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں۔ان کی مغفرت کے لیے دعائیں کرواتے ہیں۔ قرآن خوانی  کرواتے ہیں۔ لوگ اپنے بچھڑے ہوؤں کو یاد کرتے ہیں۔ان کے زخم پھر سے ترو تازہ ہوتےہیں۔  میں آج بھی وہ لمحے یاد کرتا ہوں تو خوف زدہ ہو جاتا ہوں۔کیونکہ یہ سارے مناظراپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے ہیں۔ میں نے اور اس سانحے میں متاثرہ لوگوں نے قیامت سے پہلے ایک قیامت دیکھی ہے۔ اللہ پاک نے مجھے اس سانحے میں  نئی زندگی بخشی ہے۔میں اس بےبرحم زلزلے کی وجہ سے اپنے گھر کے نیچے کہیں گھنٹوں تک دھبا رہا۔ خوش قسمت رہا کہ کسی بڑی انجری سے بھی اللہ پاک نے محفوظ رکھا۔ الحمدللہ ہم گھر والے سارے محفوظ رہے۔  مگر ہماری فیملی میں تقریباً 40  افراد جن میں چھوٹے بڑے مرد  خواتین اور بچے شامل تھے ان کا جانی نقصان ہوا۔ وہ ہم سے جدا ہوئے ۔ ان کا خلا کبھی پورا نہیں ہو گاجو کبھی بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔

اللہ کے حضور دعاگو ہیں کہ شہدائے زلزلہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے 

اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کی مغفرت فرمائے جو اس سانحے میں شہید ہوئے۔ اللہ پاک ہم سب کو ایسی قدرتی آفات سے محفوظ رکھے۔ ہم سب پر اپنا خصوصی فضل فرمائے۔ یقین جانیے وہ لمحے یاد کر کے دل آج بھی خون کے آنسوں روتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اپن پناہ میں رکھے اور سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔

@786Rajanaeem

Leave a reply