سوشل میڈیا اور اسکا  استعمال: تحریر نعمان سرور 

0
57

آج کے ڈیجیٹل دور میں ہر گھر میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے ہر دوسرا بندہ سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ  اٹھا کر دیکھ لیں آج تک میڈیا کو ایسی آزادی نہیں ملی جو موجودہ دور میں ہے۔ ہر شخص سمجتا ہے کہ وہ آزاد ہے اپنی بات دنیا کے سامنے رکھ سکتا ہے۔”آزادی رائے” کے نام پر جس کا جو دل چاہتا ہے وہ کہتا ہے۔

بزرگوں اور استادوں سے سنتے آئے ہیں کہ الفاظ ہماری شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ آپ کے بولنے سے آپ کی شخصیت تربیت اور اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بات سولہ آنے سچ ہے۔

سوشل میڈیا کا استعمال چھوٹا ہو یا بڑا خواتین ہو یا مرد ہر کوئی کر رہا ہوتا ہے یہ ایک ایسی لت کہہ لیں پڑ جاۓ تو اس سے پیچھا چھڑانا بہت مشکل ہے۔ اسکے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔ اگر آپ اسکا درست استعمال کرتے ہیں تو یہ آپ کی سوچ میں وسعت پیدا کرتا ہے آپ کی شخصیت کو مزید اُبھارتا ہے-

مگر بد قسمتی سے ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ٹیکنالوجی کا مثبت کم ہاں مگر منفی استعمال زور و شور سے کیا جاتا ہے دیکھا جاۓ تو اس منفی استعمال سے ہمارا مذہبی، معاشرتی اخلاقی اور خاندانی نظام  کھوکھلا ہو کر رہ گیا ہے رہی سہی کسر ہمارے میڈیا نے پوری کر دی ہے.

سوشل میڈیا پر مجھے  بہت حیرت ہوتی ہے چھوٹے بچوں کو دانشور بنے دیکھ کر جس عمر میں ہاتھ میں کتاب ہونی چاہیے ہمارے بچے موبائل ہاتھ میں لے فلسفہ جھاڑ رہے ہوتے ہیں لوگوں کی کردار کشی ٹرولنگ کرنے میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتے ہیں اس کام میں اگر میں کہوں کہ بس ہمارے لڑکے شامل ہیں تو غلط ہو گا لڑکیاں بھی پیچھے نہیں ہمارا معاشرہ دن بدن اخلاقی پستی کی طرف جا رہا ہے اور ہماری نوجوان نسل وہ تو اخلاقیات سے عاری ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ ہم سب کے لئے  انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔

اظہار رائے کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انتہائی موثر ذریعہ ہے ایک عام آدمی اپنی بات دنیا کے ہر کونے میں باآسانی پہنچا سکتا ہے مگر آج ہمارے بچوں کے پاس شاہد دلیل کی شدید کمی ہے اسی لئے گالم گلوج کو ترجیح دیتے ہیں  تاکہ اکثریت کو اپنی بات کے لیے قائل کر سکیں۔

سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ سیٹ ہے ہر سیاسی جماعت نے  نوجوانوں کو اپنے فائدے کے لئے رکھا ہوا ہے اور  منافقت کا  یہ عالم ہے کہ ہر شخص اپنی سیاسی جماعت کی برائی کو پس پشت ڈال کر دوسری جماعتوں کی خرابیوں کو ڈسکس کرتا رہتا ہے یا یہ کہہ لیں آجکل کا  نوجوان نام نہاد حکمرانوں کی شخصیت پرستی میں اتنا مگن ہو گیا ہے کہ یہ تک بھول چکا ہے کہ اللّٰہ نے اسے بھی ایک شخصیت دی ہے جس میں ایک سوچنے والا دماغ ہے جو تفکر و تدبر اور عقل و شعور کی صلاحیت رکھتا ہے۔ان مسلط شخصیات نے نوجوانوں کی تنظیمی طاقت سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اُنہیں ایک دوسرے کے مقابلے لا کھڑا کیا ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانا انکا مشن بنا دیا ہے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میڈیا سیل کے تابع کر کے نوجوان کی اپنی شخصیت تباہ کر دی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کا نوجوان ان لٹیروں اور مافیاز سے کہیں زیادہ عزت والا ہے۔

ہر چیز کے نقصانات  کے ساتھ اسکے فائدے بھی ہوتے ہیں اگر ہمیں اس بات کا شعور ہو جاۓ تو معاشرے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی ایشو کو موثر انداز میں سوشل میڈیا پر اٹھایا جاۓ تو انتظامیہ اس پر ضرور نوٹس لیتی ہے اس پر ایکشن لیا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے سوشل میڈیا کا درست سمت میں استعمال کیا جائے اس میں کوئی شک نہیں یہ بہت بڑی طاقت ہے. مگر اس کا چیک اینڈ بیلنس ہونا بھی بے حد ضروری ہے اسکا استعمال کریں بھر پور کریں مگر اپنے بچوں کو مانیٹر کریں اسے اچھے مقاصد کے لیے استعمال کریں. لوگوں کے لیے آسانی پیدا کریں اور مشکلات میں ان کا ساتھ دیں اور اس بات کا خیال رکھیں کے آپ کا وقت سوشل میڈیا پر وطن عزیز کے دفاع میں ہو آجکل ہمارے ملک کے خلاف کئی ممالک محاذ کھول چکے ہیں ایسے میں ہماری زمہ داری بحثیت شہری اور بڑھ جاتی ہے کے ہم اپنے وطن کا دفاع کریں اور اس کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ بنیں سچے پاکستانی بنیں اور ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دیں جو سب کے لئے راحت اور سکون میسر کرے یقین جانیں یہ صدقہ جاریہ ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔

ٹوئٹر اکاونٹ @Nomysahir

Leave a reply