تعلیم بن گئی کاروبار، اساتذہ ہوگئے خوار،انتظامیہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی

0
50

شیخوپورہ (نمائندہ باغی ٹی وی)ضلع بھر میں قائم 1294 سے زائد نجی سکولز کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ ان اداروں کی انتظامیہ فروغ تعلیم کے نام پر تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے اور مختلف حربوں سے بچوں کے والدین سے آئے روز بھاری رقوم بٹوری جارہی ہیں جس سے تعلیمی ادارے تجارتی سنٹر بن کر رہ گئے ہیں

بعض سکولز 2ہزار تا 25سوروپے تک نہ صرف ماہانہ فیسیں وصول کررہے ہیں بلکہ سٹیشنری اور یونیفارمز کی مد میں الگ لوٹا جارہا ہے مگر اس سب کے باوجود ٹیچنگ سٹاف اوردیگر نان ٹیچنگ سٹاف کو معمولی تنخواہوں پر بھرتی کررکھا ہے اور سارے سال کی کمائی براہ راست سکولز مالکان کی جیبوں میں جار ہی ہے جبکہ اکثریتی سکولوں میں مذکورہ سٹاف کی اوسطاً ماہانہ تنخواہ6تا8ہزار بتائی گئی ہے حالانکہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ اجرات پالیسی کے تحت کم از کم تنخواہ 17ہزار 500روپے ہونی چاہئے مگر لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کو معمولی تنخواہوں پر ملازم رکھا گیا ہے جس میں محکمہ لیبر کے بعض فیلڈ انسپکٹر ز براہ راست ملوث ہیں جو اعلیٰ افسران کی طرف کو سب اچھا کی رپورٹس بھجوا کر خود تو بھتہ وصول کرکے جیبیں گرم کررہے ہیں مگر سٹاف کی تنخواہوں کا معاملہ دبانے میں سکولز انتظامیہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جس پر اساتذہ تنظیموں کے بار بار احتجاج کرنے اور اصلاح و احوال کی اپیلوں کے باوجود کچھ بن نہ پڑا ہے جس سے ایک طرف سٹا ف مایوسی کا شکار ہے

دوسری طرف اساتذہ تنظیمیں بھی اعلیٰ افسران کو درخواستیں لکھنے پر مجبور ہیں مگر ہر بار انکوائری میں فیلڈ افسران پھر سے سب اچھا کا راگ الاپ کر سکولز انتظامیہ سے اپنی وفاداری نبھاتے دکھائی دیتے ہیں جس کے باعث لیبر ڈیپارٹمنٹ کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرا ٓمد میں مکمل ناکام ثابت ہوا ہے، کرونا وبا کے ایام میں اچھی شہرت کے حامل تعلیمی اداروں نے اساتذہ کو نصف تنخواہیں ادا کی ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ 50 اساتذہ کے سٹاف پر مشتمل تعلیمی اداروں میں بھی نصف سے زیادہ تدریسی سٹاف ایسا ہے کہ جن کی تنخواہیں مقررہ حکومتی معیار کے مطابق نہیں ہیں اور پندرہ ہزار روپے سے بھی کم ہیں ستم بالائے ستم تو یہ ہے کرونا وبا کے ایام میں اس کا نصف ادا کیا جاتا رہا ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک استاد ساڑھے سات ہزار روپے میں اپنے گھر کا خرچہ کیسے چلاتا رہا ہوگا، دوسری طرف لیبر ڈیپارٹمنٹ ہی کو ان سکولز کو لیبر ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کرنا ہوتا ہے اور اس کی شرائط میں ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف کی تنخواہوں کا بھی ذکرلازم قرار ہے

مگر اس سب کے باوجود رجسٹریشن کے وقت مبینہ طور پر بھاری رشوت کے بدلے قوائد و ضوابط کی پرواہ کئے بغیر رجسٹریشن کردی جاتی ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ایسا نوٹیفکیشن جاری کرے جس سے فیسوں کی حد مقرر ہو اور سٹاف کی تنخواہیں بھی واضح طور پر مقرر کی جائیں فقط فائلوں کا پیٹ بھرنے کی حد تک معاملہ محدود نہ ہو تاکہ تعلیمی استحصال اوراس مقدس پیشہ کو کاروبار بنانے کا سلسلہ بند ہوسکے جبکہ شہری حلقوں اور اساتذہ تنظیموں نے اعلیٰ حکام سے فوری نوٹس لینے اور سکولز انتظامیہ سمیت محکمہ لیبر کے خلاف کاروائی کی اپیل کی ہے

Leave a reply