الفاظ کی اہمیت، انتخاب اور نرم مزاجی تحریر: علی حمزہٰ

0
109

الفاظ کی ہماری زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ آپ کسی سے بات کرتے ہوئے کس قسم کے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں یہ آپ کی شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ بلکہ سامنے والے کے دل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں تو آپ کو بہترین الفاظ کا انتخاب کرنا چاہیے۔

انسان کے دماغ میں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے وہ اس کے رویے کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ ہم لوگ اکثر دورانِ گفتگو یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارے منہ سے نکلنے والے الفاظ کی وجہ سے کسی کے دل کو ٹھیس بھی پہنچ سکتی ہے۔ لہٰذا الفاظ ہی ہیں جو کسی بھی شخص کی تربیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے استعمال کیے ہوئے غیر ضروری الفاظ کے اثرات کا اندازہ بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ اچھے اور معیاری الفاظ کا استعمال کیا جائے۔

گفتگو میں مٹھاس اور لہجے میں نرم مزاجی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک سے کبھی ایسی بات نہیں نکلی جس کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو اتنی آرام اور ٹھہر ٹھہر کر فرماتے کہ اگر کوئی شخص آپ کے الفاظ مبارک کو گنتی کرنا چاہے تو آرام سے کر لیتا تھا۔

” اور اے محمدؐ، میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے”

قرآن سورت الاسراء آیت پینتیس میں ہمیں صرف وہی کہنے کی ہدایت دیتا ہے جو بہترین ہے۔ انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ کہنے کی عادت رکھنا چاہئے۔ (۱۷:۳۵)

ہمیشہ وہی بات کرنی چاہیے جو سچی، صحیح اور کھڑی ہو۔ جھوٹی اور غیر معیاری گفتگو کرنے سے پہلے یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ اس کے برے اثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔

اور زمین پر اتراتا ہوا نہ چل بے شک تو نہ زمین کو پھاڑ ڈالے گا اور نہ ہی بلندی میں پہاڑوں تک پہنچے گا۔ ۱۷:۳۷ ۔

زبان کے استعمال کے متعلق سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۶۷ میں اللہ منافقوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ الفاظ کو اس طرح چبا کر بولتے ہیں، جس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اُن کا مقصد کیا ہے ،

"وہ اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اللّٰه اس کو خوب جانتا ہے۔” ہمیں اس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ جب بھی بولو بات واضع ہو، اور ذو معنی الفاظ نہ استعمال کیے جائیں۔ یہی بات اللہ سورۃ البقرۃ میں آیت نمبر ۴۲ میں فرماتا ہے، باطل کو سچائی کے ساتھ گھول کر غلط بیانی سے لوگوں کو مغالطہ میں مت ڈالو۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش نا کرو۔[۲:۴۲] جب الفاظ اخلاص اور یقین کے ساتھ نہیں بولے جاتے ہیں تو، الفاظ اپنا اثر کھو دیتے ہیں۔ انسان کے اعتقادات بے معنی ہیں جب تک کہ اس کے کردار اور طرز عمل ان عقائد کا عملی ترجمہ نہ ہوجائیں۔ جب کسی انسان کا طرز عمل اس کے الفاظ کی عکاسی کرتا ہے ، چاہے یہ الفاظ کتنے ہی سادہ اور عام ہوں، لوگ اس پر اعتماد کریں گے اور اسے سنجیدگی سے لیں گے۔ ان الفاظ کی طاقت اور اثر کو اس میں پوشیدہ اخلاص اور ایمانداری لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، جس انداز میں وہ بولے جاتے ہیں، وہ بیانات یا فصاحت سے نہیں بلکہ جن الفاظ میں مخاطب کیا جا رہا ہو وہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔ایسے بول اپنے آپ میں خود ایک طاقت ہوتے ہیں۔

ایک اور جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجہ کو حاصل کرلیتا ہے۔ (ابوداؤد)۔

اللہ رب العزت کے حضور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Twitter Handle: @AliHamz21

Leave a reply