ہم لوگوں کو بدگمانی سے بچنے کی نصحت تو کرتے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ معاشرے میں بدگمانی کی وبا پھیلانے والے عناصر کون سے ہیں ؟
معاملہ یہ ہے کہ ہر انسان میں اعتماد کرنے کی صلاحیت ایک خاص مقدار میں خالق کائنات نے ودیعت کی ہے ۔ اعتماد ہمارا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے ، جب کسی پر ہم اپنے اعتماد کا سرمایہ انویسٹ کرتے ہیں تو ہم امید کرتے ہیں کہ وہ سامنے والا ہمارے اعتماد کا بدلہ اپنے حسن کردار سے دے گا، سامنے والا جب اپنے حسن کردار سے ہمارے اعتماد کو وقار بخشتا ہے، ہمارے بھروسے پر کھرا اترتا ہے تو ہمارا اعتماد کا سرمایہ بڑھتا ہے، لوگوں پر بھروسہ کرنے کا ظرف وسیع ہوتا ہے۔
لیکن اگر جس پر بھروسہ کیا وہ بدکردار نکل گیا، تو اعتماد کرنے کی ہماری قوت کمزور پڑ جاتی ہے، دھوکہ کھایا ہوا شخص کسی پر بھروسہ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتا ہے، ایسے شخص کو حسن ظن کی تلقین تو کی جاسکتی ہے لیکن جس شخص کو زندگی کے تجربے نے صرف دھوکے باز لوگ دیے ہوں محض تلقین اس کے اندر اعتماد کرنے کا ظرف پیدا نہیں کرسکتی۔
لہذا بدگمانی پھیلانے میں سب سے مؤثر کردار ان دھوکے باز لوگوں کا ہے جو لوگوں کا اعتماد توڑتے ہیں۔ اپنی زبانوں سے لوگوں کا بھروسہ جیتتے ہیں اور اپنے کردار سے ان کو دغا دے جاتے ہیں، ایک دھوکے باز انسان اپنی زندگی میں اپنے غلیظ کردار سے سیکڑوں لوگوں کو بدگمانی کے جراثیم سے متاثر کردیتا ہے۔
اس لیے غدار صرف اس شخص کا مجرم نہیں ہوتا جس کا سرمایہ اعتماد اس نے لوٹ لیا ہے اور اس کو اب کسی پر اعتماد کے لائق نہیں چھوڑا، وہ معاشرے کے ان تمام نیک کردار لوگوں کا بھی مجرم ہوتا ہے جو قابل اعتماد تھے لیکن اس غدار کی پھیلائی بدگمانی نے معاشرے سے ان نیک کردار لوگوں کا اعتبار بھی ختم کردیا ہے۔ اس طرح یہ نفاق صفت دھوکے باز پوری قوم کے مجرم ہوتے ہیں۔ اور انکا جرم بدگمانی سے بھی بڑا ہے۔
زبان اور کردار میں فرق منافقت ہے ، حدیث میں بتایا گیا ہے کہ منافق کی علامت ہے کہ وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرتا ہے،بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے۔
ذرا غور کریں! جس معاشرے میں منافقین کی کثرت ہو اس معاشرے میں کسی کو ہر کسی سے حسن ظن کی تلقین کرنا کوئی سمجھداری کی بات ہے؟ بلکہ ہر کسی پر اندھا اعتماد بے وقوفی ہے۔
اک عمر ہم کسی پہ بھروسا کیے رہے
پھر عمر بھر کسی پہ بھروسا نہیں کیا







