حصول رزق میں حلال اور حرام کی تمیز تحریر : فہد شکور

0
76

بےعملی بے روزگاری اور گداگری کو سخت نا پسند کیا گیا ہے اور اس پر سخت وعید سنائی گئی ہے

حدیث مبارکہ میں ہے کہ

” حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ تم سے کسی شخص کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور رزق مہ تلاش نہ کرے اور کہتا رہے کہ اللّٰہ مجھے رزق عطا فرما”

ہمیں حصول رزق کیلئے جدوجہد بھی کرنی چاہیے کیونکہ ہم جانتے ہیں آسمان سونا چاندی نہیں برساتا جو ہم گھر بیٹھے رہے اور کہیں کہ ہمارے پاس رزق نہیں ہے

خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشاد ہے

"کہ جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنے رزق کی تلاش سے غافل ہو کر سوتے نہ رہو”  (کنزالعمال)

اسلام نے ساری زمین کو انسان کیلئے میدان عمل قرار دیا یے اور انسان کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے معاش کے حصول کیلئے زیادہ سے زیادہ جدوجہد کرے۔ اسلام نے انسان کو مختلف طریقوں سے محنت اور معاشی جدوجہد جے حصول کئیلے اکسایا ہے۔ اسلامی معاشیات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام انسانوں کو معاشی سہولتیں فراہم کی جائیں اور ان کو ترقی دی جائے ۔ تمام انسانوں کو معاشی جدوجہد کے مساوی مواقع فراہم کئے جائے کیونکہ فقروفاقہ انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے۔

اسلام حصول رزق کیلئے اس بات کی شرط عائد کرتا ہے کہ آمدنی جائز ذرائع سے حاصل ہو اور ہر وہ نفع جو جو غلط طریقہ یعنی حرام ذرائع سے حاصل ہو دوزخ کی آگ قرار دیتا ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے

"اے لوگوں جو چیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے حلال اور پاک چیزیں کھاؤ”  (بقرہ 168)

حرام سے کمائی ہوئی روزی کے متعلق ارشاد نبوی ہے

"حرام روزی سے پرورش پایا ہوا گوشت اسکا زیادہ مستحق ہے کہ آگ میں ڈالا جائے”

الجامع الترمذی 614

حصولِ رزق میں سے ایک ذریعہ سود ہے جو معاشی ظلم کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اسلام نے سود کو اور سکی ہر شکل کو حرام قرار دیا ہے پھر چاہے یہ مفرد یا مرکب یا ذاتی قرضوں پر لیا جائے ۔ تجارتی اور پیداواری قرضوں پر حرام ہے۔ اسکو لینے والے کو خدا اور اسکے رسول کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے

ارشادِ ہے

"اے ایمان والو !سود کے کئی کئی حصے بڑھا چڑھا کر نہ کھاؤ اور اللّٰہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ”

(آل عمران 130)

اسلام ںے تجارت کو حلال اور جائز قرار دیا ہے تجارت میں امانت اور دیانت کو ہمیشہ واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے

"امانت دار تاجروں کا حشر قیامت کے دن صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا”

اسلام تجارت میں بددیانتی، دھوکا اور وعدہ خلافی کو رد کرتا ہے اس طرح ناپ طول کو درست رکھنا تجارت کا اہم حصہ ہے۔ اسلام ذخیرہ اندوزی اور منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر لعنت بھیجی گئی ہے۔

اسلام دولت کے ارتکاز کو پسند نہیں کرتا اور یہ چاہتا کہ جائز طریقہ سے دولت کی تقسیمِ زیادہ ست زیادہ اور منصفانہ ہو اور پورے معاشرے میں دولت گردش کرے

سودی نظام اور حرام ذرائع سے حاصل کردہ رزق سے ںچنے کیلئے ضروری ہے کہ

حرام طریقے سے کمانے والے رزق کی شدید مخالفت کی جائے۔ حرام ذرائع روزگار پر پابندی عائد کی جائے۔ جہاں کہیں رزق میں شک ہو اسے ترک کیا جائے ۔ حرام کی کمائی کرنے والے کی کوئی بھی چیز قبول نہ کی جائے ۔اگر ہم ‏‎‎اللّٰہ تعالیٰ کے نظام معیشت پر غور کریں تو سودی نظام ختم ہو سکتا ہے۔ ارشاد ہے۔ صاحب حیثیت لوگ مال کو جمع نا کریں؟ گردش میں رکھیں؟اگر مال گردش میں رہیے گا تو روزگار پیدا ہو گا؟ زراعت اور صنعت ترقی کرے گا؟ کہیں نا کہیں تو پیسہ خرچ ہو گا گردش کے لئے؟ حلال رزق کے زیادہ سے زیادہ او بہتر مواقع فراہم کئے جائے۔ حلال طریقے سے رزق کے راستے آسان کئے جائے تاکہ لوگ حرام کی بجائے حلال طریقے سے رزق حاصل کریں

اور سود اور حرام کا خاتمہ ہو سکے۔

جزاک اللّہ

@Malik_Fahad333

Leave a reply