کپتان کا پاکستان ، بن گیا غریب کیلئے قبرستان، تحریر: نوید شیخ

0
123

کپتان کا پاکستان ، بن گیا غریب کیلئے قبرستان، تحریر: نوید شیخ

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب جہاں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہیں سماجی و نفسیاتی مسائل اور جرائم کی شرح بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس لیے آج پہلے دو خبریں آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ پھر آگے بات کریں گے ۔ ۔ سب سے پہلے بات کریں تو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے درالخلافہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں دن دیہاڑے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر ڈاکو تین کروڑروپے مالیت کا قیمتی سامان لوٹ کر فرار ہو گئے ہیں پھر ملزمان نے خواتین اور بچوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے ۔ دوسری وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈاکو مسلم لیگ ن کی سینیٹر کا گھر لوٹ کر فرار ہو گئے۔ ڈکیتی کی واردات اسلام آباد کے پوش علاقہ ایف ٹین میں واقع سینیٹر نزہت عامر کے گھر ہوئی۔ یہاں بھی نامعلوم مسلح افراد نے اسلحہ کی نوک پر اہل خانہ کو یرغمال بنایا ۔ دراصل پی ٹی آئی نے حقیقی تبدیلی یہ برپا کی ہے پورےملک میں ڈکیتیاں معمول بن گئی ہیں۔ اب تو ہر کوئی انتظارکررہا ہوتا ہے کہ کب ہماری باری آئے گی۔ ۔ یہ عثمان بزدار اور عمران خان کی ان تھک محنت اور کوششوں کا پھل ہے ۔ جو انھوں نے پولیس میں اتنے تبادلے کیے ہیں ۔ کہ محکمہ پولیس صرف transfer and posting کا ادارہ بن کر رہ گیا ہے ۔ اس کے بعد ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کیسے ٹھیک رہ سکتی تھی ۔ اس وقت سٹریٹ کرائم اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ عوام کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں ۔ اور بس ایک ہی دعا کر رہے ہیں کہ یا اللہ ان نااہل حکمرانوں سے جان چھڑا دے ۔ ۔ کیونکہ عوام جان گئے ہیں کہ ان کے حصے میں صرف ڈبل ایکس مہنگائی ، اہل اختیار کی بے حسی اور خالی خولی دعووں اور وعدوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔

۔ مسائل کو حل کرنے کے ان کے طریقوں پر ذرا غور فرمائیں ۔ مہنگائی ہوگئی ہے تو شرح سود بڑھا دو، تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے تو روپے کو گرادو، عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا ہے تو عالمی اداروں سے قرضہ لے لو۔ ٹیکس لگانا ہے تو ایسے لگا ئو کہ مراعات یافتہ طبقے کا بال بیکا نہ ہو۔ تحریک انصاف وہ سب کام کررہی ہے جس سے اشرافیہ کو فائدہ پہنچے لیکن اصرار یہ ہے کہ این آر او نہیں دینا اور عوام مزید صبر کریں ۔ مہنگائی و بے روزگاری کی چکی میں پستے عوام کے شب و روز تلخ ہو چکے ہیں۔عوامی غم و غصہ برداشت سے باہر ہے۔ کیونکہ عمران خان نے بننا تو پاکستان کو ملائیشیا یا سنگاپور تھا ۔ پر بنا افغانستان دیا ہے ۔ بلکہ اس سے بھی بدتر کر دیا ہے ۔ کیونکہ مہنگائی کی شرح یہاں افغانستان سے بھی زیادہ ہے ۔ ویسے جب ریاست اپنی مالی اور مالیاتی خودمختاری آئی ایم ایف کے پاس رہن رکھنے پہ مجبور ہو جائے ۔ تو اندازہ لگا لیں کون لوگ اس ملک پر مسلط ہوچکے ہیں ۔ پھر حکومتی وزراء کا وتیرہ بن گیا ہے کہ وہ اپنی ہر ناکامی کو ماضی کے حکمرانوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جائیں۔ منجن وہ یہ بیچتے ہیں کہ ملک پر دو پارٹیوں کی دہائیوں تک حکومت رہی ۔ اس کے اثرات پورے نظام پر موجود ہیں اور انتظامی خرابیاں بھی اسی کی وجہ سے ہیں۔ اس وجہ سے اب تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔ حالانکہ تبدیلی آرہی ہے ۔ کبھی عوام میں جا کر یہ پوچھیں تو انکو لگ پتہ جائے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ قوم ہمارا ساتھ دے جلد خوشخبری سنائیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ کیا یہ خوشخبری قوم کے لیے کم ہے کہ وہ آٹا ، چینی اور بجلی کے بعد گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی برداشت کررہی ہے ۔ آپ دیکھیں سردیاں آ تی ہیں تو گیس چلی جاتی ہے، گرمیاں آتی ہیں تو بجلی چلی جاتی ہے، کوئی وباء پھیلتی ہے تو ادویات کی قلت پیدا ہو جاتی ہے، رمضان المبارک کا آغاز ہوتا ہے تو اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔ سچ یہ ہے جس کو حکومت اور حماد اظہر جھٹلاتے ہیں کہ پچھلے دور میں قدرتی گیس کی کمی کو دور کرنے کے لیے قطر سے ایل این جی کی درآمد کے معاہدے کئے گئے اور ملک میں بروقت اس کی درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں اس کی ترسیل کا نظام بھی قائم کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں موجودہ حکمرانوں سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ جن اوقات میں ایل این جی کی خریداری کے سستے سودے کیے جا سکتے تھے۔ تب یہ کر لیتے اور اب جو مہنگے داموں میں ایل این جی کی خریداری کے سودے کیے وہاں ملکی ضرورت کے مطابق 14کارگوز منگوانے کے بجائے صرف 12کارگوز کے سودے کرنے میں بمشکل کامیاب ہو سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ابھی جب کہ سردیوں کا پوری طرح آغاز بھی نہیں ہوا ہے ملک بھر میں گیس کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔

۔ اس وقت گیس کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے چند دنوں میں تین سو روپے سے زائد اضافے کے ساتھ لکڑی اب نو سو نوے روپے فی من فروخت ہو رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں چند روز قبل تک سترہ سو روپے میں ملنے والا گھریلو سلینڈر کی قیمت تین ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے گیس فراہم کی جا رہی ہے اس دوران بھی پریشر نہایت کم ہوتا ہے۔ پھر دیہاتی علاقوں میں تو سرے سے گیس بند ہی کر دی گئی ہیں ۔ یہاں تک اندسٹری بھی رو رہی ہے کہ گیس نہیں مل رہی ۔۔ سچ یہ ہے کہ حکومت کے پاس نہ تو کوئی ویژن ہے نہ وزراء کو عوامی مسائل کا ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ تین سال میں عام آدمی کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ ۔ پھر بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کو نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے کم از کم دس سال مزید چاہئیں ۔ جو کہ میری نظر میں صرف ای وی ایم ہی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لکھ لیں خدانخواستہ یہ اگلے دس سال بھی مل گئے تو کپتان نے کَٹوں، وَچھوں، مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے ہی ملکی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ اور انھی سے سارے قرضے اُتار کر آئی ایم ایف پر لعنت بھیجنی ہے ۔ پھر بننی ہے کپتان کی ریاستِ مدینہ ۔۔ ہمارے آج کے مرکزی حکمران چند شیلٹر ہومز اور کچھ لنگر خانے بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم ریاستِ مدینہ پر عمل پیرا ہیں ۔ ۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے قصے تو عوام کو بہت سنائے اورمتعدد اعلانات بھی کیے کہ لُوٹی رقوم ہر صورت میں واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرواؤں گا۔ ہُوا مگر کیا؟ جواب ہم سب کے سامنے ہے۔

۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جب حکمرانوں کا اپنا حال یہ ہو کہ توشہ خانے کا حساب دینے کے لیے تیار نہ ہوں تو کسی اور سے کیا خاک پیسہ نکلوانا ہے انھوں نے ۔ ہمارے حکمرانوں کو بس اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور آئندہ کے انتخابات بھی اپنے حق میں رکھنے کا جنوں ہے۔ اب اگر لوگ ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے دور کو یاد کرتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ نواز شریف یا آصف زرداری ان کے رشتہ دار ہیں بلکہ وہ ان کی دی ہوئی ڈیویلپمنٹ اور سہولتوں کو یاد کرتے ہیں۔ آپ جو مرضی کہہ لیں ۔ جتنی مرضی گزشتہ ادوار پر تنقید کرلیں ۔ اس کے باوجود گزشتہ دور اس دور سے لاکھ درجے بہتر تھے ۔ اور یہ میں نہیں عوام کہہ رہے ہیں ۔ دراصل یہ ہی تو اس ملک کے ساتھ المیہ ہوا ہے کپتان نے وہ کارکردگی دیکھائی ہے کہ اب لوگ کپتان کے علاوہ کسی کو بھی قبول کرنے کو تیار ہیں ۔ چاہے وہ چور ، لٹیرا یا ڈاکو ہی کیوں نہ ہو ۔ کیونکہ عمران خان محض بیان بازی کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور عوام کو یہ دونمبری سمجھ آگئی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ یہ قرضے اب کی بار رکنے کے نہیں۔ یہ صرف اور صرف بڑھنے کے لیے ہیں ۔ کسی میں بھی جرات نہیں کہ یہ حقیقت بتا سکے۔ یہ حکومت پاکستان کی خود مختاری پر توسودا کررہی ہے ۔ پر لوگوں میں انوسٹ نہیں کررہی ، ترقیاتی کاموں پر زیادہ خرچہ نہیں کررہی ، تو لوگوں کا معیار زندگی کیسے بہتر ہوگا اور یوں جب لوگ ہنر مند نہیں ہوں گے، تو ہماری ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی۔ ہم ایک طویل دلدل میں پھنس چکے ہیں، ہم نے جو بیانیہ بنایا تھا، وہی آج ہمیں ڈس رہا ہے ۔ دنیا بہت بدل چکی ہے اور ہماری کوئی بھی تیاری نہیں۔ اس لیے جو بدحالی اب کے بار آئی ہے اس نے خان صاحب کو تو کیا خود اس کے پیچھے کھڑی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کو ہلا دیا ہے۔ یاد رکھیں حکمرانی کا شوق اور اقتدار کے مزے لوٹنا ایک ایسی خواہش اور تمنا ہے جو بہت سارے لوگوں کے دلوں میں مچلتی رہتی ہے۔ تاہم حکمرانی کے اُمور چلانا اور ماضی میں کیے جانے والے اپنے دعوؤں اور نعروں کو عملی جامہ پہنانا اور عوام کی توقعات پر پورا اُترنا آسان نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکمرانی کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے بلند ویژن کے ساتھ ہر لمحے، دانائی اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک لحاظ سے تنے ہوئے رسے پر چلنا پڑتا ہے۔ ہماری بدنصیبی اور بدقسمتی ہے کہ ہمیں ایسے حکمران اور ایسی حکومتیں نصیب ہوتی رہی ہیں جنہوں نے نہ تو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ کام کیا نہ ہی ملک میں پائی جانے والی بد عنوانی، رشوت ستانی، اقربا پروری جیسی بُرائیوں اور مہنگائی در مہنگائی جیسے عفریت کو ختم کرنے میں کوئی پیش رفت دکھائی۔

۔ اس لیے اگر وزیر اعظم جناب عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو سوائے اس کے کہ اس کے بار ے میں صفر +صفر+صفر = صفر0+0+0 = 0 کہا جائے، اس کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں بنتا۔۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جناب عمران خان کے دورِ حکومت میں مملکت اور ریاست پاکستان کی جو درگت بنی ہے۔ اس کی قیامِ پاکستان سے لے کر پچھلے ادوارِ حکومت تک کوئی مثال نہیں ملتی۔ ۔فی الحال تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ملک کتنا پیچھے چلا گیا ہے اس کا صحیح اندازہ آنے والے وقتوں میں ہوگا۔

Leave a reply