سعودی عرب چین کی مدد سے اپنے بیلسٹک میزائل بنا رہا ہے،امریکی حساس اداروں کا دعویٰ

0
100

واشنگٹن: امریکی حساس اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب نے چین کی مدد سے بیلسٹک میزائل بنانا شروع کردیئے ہیں امریکی خفیہ ایجنسیوں کی اس رپورٹ کی خبر جُمعرات کو امریکی ٹی وی نیٹ ورک ’سی این این‘ پر نشر کی گئی تھی۔

باغی ٹی وی : رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کمیٹی سمیت متعدد انٹیلی جنس ایجنسیوں کے امریکی حکام کو حالیہ مہینوں میں خفیہ انٹیلی جنس پر بریفنگ دی گئی ہے جس میں چین اور سعودی عرب کے درمیان حساس بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کی بڑے پیمانے پر منتقلی کا انکشاف ہوا ہے۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکی حساس اداروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے اس اقدام سے مشرقی وسطیٰ پر منفی نتائج مرتب ہوں گے جبکہ دوسری جانب ایران سے جوہری معاہدوں کے حوالے سے بائیڈن کیلئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔

امریکا اور اسرائیلی وفود کے درمیان اہم مذاکرات:ایرانی جوہری پروگرام کوخطے لیے خطرہ…

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ماضی میں بھی چین سے بیلسٹک میزائل خریدتا آیا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے جب سعودی عرب کے پاس اپنے تیار کردہ بیلسٹک میزائل ہوں گے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی حساس اداروں کے عہدیداران بشمول وائٹ ہاؤس کی نیشل سیکورٹی کونسل کو دونوں ممالک کے مابین بیلسٹک میزائل کی منتقلی سے ماضی میں بھی خبردار کیا جاتا رہا ہے۔

امریکہ کے مڈلبری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں اسلحے کے ایکسپرٹ اور پروفیسر جیفری لیوس نے سی این این کو بتایا کہ حکومتی سطح پر جو تنقید ایران کے وسیع پیمانے پر بیلسٹک میزائل پروگرام پر کی جارہی ہے، اس سطح کی تنقید سعودی عرب کے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام پر نہیں کی جارہی۔

فوٹو بشکریہ: سی این این
’سی این این‘ کی جانب سے حاصل کردہ نئی سیٹلائٹ امیجز میں اشارہ ملتا ہے کہ سعودی عرب پہلے ہی چینی مدد سے قائم کی گئی جگہ پر بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے ماہرین کے مطابق جنہوں نے تصاویر اور ذرائع کا تجزیہ کیا انہوں نے تصدیق کی کہ وہ تازہ ترین امریکی انٹیلی جنس تشخیص کے مطابق پیش رفت کی عکاسی کرتے ہیں۔

امریکی فوجیوں کا انتہا پسندی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف

پروفیسر جیفری لیوس کے مطابق اہم ثبوت یہ ہے کہ یہ سہولت بیلسٹک میزائل کی تیاری سے ٹھوس ایندھن کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لیے ایک "آتشیں گڑھا”قائم کیا گیا ہے انہوں نے مزید وضاحت کی کہ کاسٹ شدہ راکٹ انجن پروپیلنٹ کی باقیات پیدا کرتے ہیں جو ایک دھماکہ خیز خطرہ ہے ٹھوس پروپیلنٹ کی پیداواری سہولیات میں اکثر آگ کے گڑھے ہوتے ہیں جہاں بقایا ایندھن کو آگ کے ذریعے ضائع کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ امریکی دانشور نے کہا کہ زیر بحث تنصیب چینی مدد سے تعمیر کی گئی تھی اور انٹیلی جنس کے نئے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب نے حال ہی میں چین سے حساس بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی خریدی ہے امکان ہے کہ وہاں بنائے گئے میزائل چینی ڈیزائن کے ہیں اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو تیار کرنے میں مدد کے لیے دوسرے ممالک کی طرف رجوع کیا ہےجس سے یہ طے کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ مملکت اب اس سہولت پر کون سا ہتھیاروں کا نظام بنا رہی ہے۔

انڈیا کی پاکستانی سرحد کے قریب فضائی دفاعی سسٹم ایس۔400 کی تنصیب

دوسری جانب اس حوالے سے کہ چین اور سعودی عرب کے درمیان حساس بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کی کوئی منتقلی ہوئی ہےپر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں سی این این کو بتایا کہ دونوں ممالک "جامع اسٹریٹجک پارٹنر” ہیں ہم ہر پہلو میں دوستانہ تعاون شعبوں بشمول فوجی تجارتی میدان میں بھی تعاون بر قراررکھیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تعاون کسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے اور اس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلاؤ شامل نہیں ہے۔


درایں اثنا بحرین میں سابق امریکی سفیر ایڈم ایریلی نے ٹویٹر پر اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے لیے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا اچھا ہے وہ امریکہ پر بھروسہ نہیں کر سکتا شاید اگر ہم مشرق وسطیٰ میں ایک مربوط اور مستقل پالیسی رکھتے اور اتحادیوں کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آتے تو ایسا نہ ہوتا۔

سی این این نے کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ماضی میں چین سے بیلسٹک میزائل خریدے ہیں لیکن تازہ ترین انٹیلی جنس سے واقف تین ذرائع کے مطابق وہ اب تک اپنے میزائل بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

اومی کرون ویرینٹ سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں امریکی صدر

Leave a reply