آج ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ آج پھر سیمینارز، کانفرنسیں، ریلیاں اوراحتجاجی مظاہرے ہوں گے۔ کئی کلو میٹر کی ہاتھوں کی زنجیریں بنیں گی۔ چوکوں اور چوراہوں پر بھارتی مظالم کے خلاف جلسے اور جلوس ہوں گے ۔

تفصیلات کے مطابق آج 5 فروری پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج کشمیریوں سے یک جہتی کے لیے یوم یکجہتی کشمیر بھرپور انداز میں منایا جائے گا
اس دن کو منانے کا مقصد کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا اور یہ باور کرانا ہے کہ کشمیر پاکستانی کی شہ رگ ہے۔

ہر سال 5 فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منایا جاتا ہے تاہم رواں سال اس کی اہمیت بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور لاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ سے بڑھ گئی ہے، واضح رہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا تھا

مقبوضہ جموں و کشمیر کو تقسیم کرتے ہوئے اسے 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل کردیا تھا جس کا اطلاق گزشتہ سال 31 اکتوبر سے ہوگیا تھا، ساتھ ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے مکمل لاک ڈاؤن کردیا تھا جو 5 اگست سے اب تک جاری ہے جبکہ وہاں کے عوام کو مواصلاتی نظام کی بندش کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوگیا ہے اور شہری اپنے اہلخانہ سے رابطہ قائم کرنے سے محروم ہوگئے ہیں، تاہم گزشتہ ماہ خطے میں محدود موبائل ڈیٹا اور انٹرنیٹ سروس کو عارضی طور پر بحال کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود عوام کو مشکلات ہیں۔

آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستان بھر میں عام تعطیل ہے

یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر ملک کئمے مختلف شہروں میں ریلیوں، جلسوں، سیمینارز اور دیگر تقاریب کا انعقاد کیا جارہا ہے جبکہ بھارتی مظالم کے خلاف

اج پانچ فروری2022 کو 32 واں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے اور اکتیس برس گزرنے کے بعد آج تحریک آزادی کشمیر ایک فیصلہ کن اور انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ آج پورے ملک میں سرکاری طور پر تعطیل منائی جا رہی ہے۔ایک طرف ہم کشمیر کو اپنی شہہ رگ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف کشمیر میں جاری بدترین کرفیو اور لاک ڈائون ہے اور ہماری شہہ رگ ہمارے روایتی اور ازلی دشمن کے پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے اور ہم صرف احتجاجی مظاہرے اور سیمیناز منعقد کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا قومی فریضہ انجام دے دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک طرف صرف قرار دادیں منظور کی جائیں اور دوسری طرف روزانہ سرکٹوائے جائیں؟ ایک طرف مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات پر زور دیا جاتا ہے، تو دوسری طرف کشمیری کئی برسوں سے بھارتی محاصرے اور خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یقیناً پاکستان کی 22 کروڑ عوام کی موجودگی میں کشمیر کا کوئی سودا نہیں ہو سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف ایک دن کویکجہتی کشمیر سے منسوب کر کے ہم نے اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں؟کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ اس پر سوچنا ہو گا، کیونکہ آج پھر پانچ فروری ہے۔ آج کا دن بھی گزر جائے گا، لیکن انتظار اس دن کا ہے ،جب کشمیریوں کو آزادی ملے گی اور کشمیرمیں جاری ظلم کا خاتمہ ہو گا۔

Shares: