یوکرائن تنازع کے چلتے امریکی فوجی کمک کا پہلا دستہ پولینڈ پہنچ گیا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ مزید دستے بھی جلد بھیجے جائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ مغربی اتحادی ممالک کی مدد کے لیے مشرقی یورپ میں مزید امریکی فوجی روانہ کریں گے۔
وا ضح رہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ مشرقی یورپ کے لیے فوجی روانہ کریں گے۔ مغربی ممالک کو یقین ہے کہ روس یوکرائن پر ایک نیا حملہ کرنے والا ہے۔
دریں اثناء پولش آرمی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی فوجیوں پر مشتمل پہلا دستہ ہفتے کے دن وارسا پہنچ گیا ہے۔
یہ امریکی فوجی مشرقی یورپ میں پہلے سے ہی تعینات مغربی عسکری دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجیوں میں شامل ہو جائیں گے ۔ جب کہ مزید سترہ سو امریکی فوجی جلد ہی پولینڈ روانہ رہے ہیں۔
مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان فوجیوں کی رہائش کا انتظام جاسیوانکا میں کیا گیا ہے، جہاں عارضی شیلٹر ہاؤسز بنائے گئے ہیں۔ علاقے کو رکاوٹیں لگا کر عام شہریوں کی آمدورفت کے لیے بھی بند کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے، پولینڈ میں پہلے سے تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد تقریبا ساڑھے چار ہزار بنتی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے مطابق مشرقی یورپ میں نیٹو اتحادی ممالک کی عسکری مدد کے لیے مزید تین ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک دستہ روانہ کیا جائے گے۔
امریکی اور اس کے مغربی اتحادی ممالک کا دعویٰ ہے کہ روس نے یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ کے لگ بھگ فوجی تعینات کر رکھے ہیں او وہ یوکرائن میں فوجی کارروائی کا منصوبہ رکھتا ہے۔
تاہم ماسکو حکومت مسلسل ان الزامات کو مسترد کر رہی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا لیکن اپنے مفادات پر سمجھوتا بھی نہیں کرے گا۔ روسی صدر نے اسی ہفتے کہا کہ مغربی ممالک کے اقدامات ان کو جنگ پر مجبور کررہے ہیں۔
یوکرائنی صدر وولودومیر زیلنسکی نے حال ہی میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ مغربی ممالک روسی حملے کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، جو غلط ہے۔ اسی طرح ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بھی اپنے دورہ یوکرائن کے بعد اسی ہفتے کہا تھا کہ یوکرائن پر روسی حملوں کے خطرات کے امریکی تجزیوںکے باعث تناؤمیں شدت آرہی ہے۔
ترک صدر کا مزید کہنا تھا کہ مغربی ممالک نے یوکرائنی بحران کو زیادہ سنگین بنایا ہے جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن اس تناظر میں مناسب ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

یوکرائن بحران پر نیٹو اور روس کے درمیان کشیدگی کے خلاف یورپی جنگ مخالف اتحاد کی جانب سے بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا۔
مظاہرین نے ممکنہ یوکرائن جنگ اور نیٹو کے خلاف جبکہ ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے نعروں پر مبنی بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے۔مظاہرے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ یوکرائن کے مسئلے پر متوقع جنگ امریکی، یورپی اور روسی سامراج کی سازش ہے۔
احتجاج میں شریک ایک شخص نے کہا کہ یہ جنگ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے عوام دشمن معاشی مفادات کو بے نقاب کر رہی ہے۔ اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ دراصل یہ اسلحے کی فروخت کے لیے کی جانے والی جنگ ہے۔
مظاہرے میں شامل ایک خاتون نے کہا کہ اربوں ڈالرز جنگ کی بجائے اسکولوں، ہسپتالوں اور ویکسینیشن کی تحقیق پر خرچ کرنے چاہئیں اور یوکرائن تنازع بات چیت سے حل کیا جانا چاہیے۔
روس کی تقریباً ایک لاکھ فوج بھاری فوجی ساز و سامان کے ساتھ یوکرائن کی مشرقی سرحد کے گرد جمع ہے۔ یوکرائن کے مشرقی سرحدی علاقوں میں روسی بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے اور وہاں یوکرائن حکومت کے خلاف 2014ء سے شورش جاری ہے۔
دوسری جانب امریکا اور برطانیہ نے مشرقی یورپ میں نیٹو افواج کو متحرک کرنا شروع کر دیا ہے اور اسٹونیا میں آرٹلری اور جدید جنگی طیارے پہنچا دیے ہیں تاکہ روس کے خلاف کسی ردعمل کے لیے تیار رہا جائے۔
اِسی تناظر میں مظاہرین کو خدشہ ہے کہ یورپ میں ایک بڑی جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔
یورپی جنگ مخالف محاذ کے مظاہرے میں شامل دوسری جنگ عظیم سے متاثرہ ایک شخص کا کہنا تھا کہ مظاہرے میں شرکت کا مقصد یورپی رہنماؤں کو یہ باور کرانا ہے کہ جنگ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں لاتی۔
مظاہرے میں بچوں سمیت شریک ایک خاندان کا کہنا تھا یورپ دو بڑی جنگوں کا خمیازہ بھگت چکا ہے اور اب مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔