اسرائیلی پولیس نے مبینہ طور پر سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے بیٹے اور ان کے قریبی حلقے میں شامل افراد کے فون پر جاسوسی کے لیے اسپائی ویئر کا استعمال کیا۔
باغی ٹی وی :"واشنگٹن پوسٹ” کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اخبار کیلکلسٹ نےپیرکو ایک رپورٹ میں سابق وزیراعظم کے بیٹے اور ان کے معاونین کی جاسوسی کا انکشاف کیا ہےاس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس نے مظاہرین اور دیگراسرائیلی شہریوں کے خلاف جدیدترین اسپائی ویئر کا استعمال کیا۔اس کی اس کارروائی کی سیاسی حلقوں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے جبکہ معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں میں پولیس کمشنر بھی شامل ہوچکے ہیں۔
حال ہی میں اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی تھی کہ نیتن یاہو کے کرپشن کے مقدمے میں ایک اہم گواہ کے خلاف اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا۔
اسرائیلی پولیس پر یہ الزامات نیتن یاہو کے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمے کو بھی کمزور کرسکتے ہیں۔یہ بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ اسرائیلی پولیس نے سابق وزیراعظم کے خلاف مقدمے میں ایک اہم گواہ کی کڑی نگرانی کے لیےاسپائی ویئر کا استعمال کیا تھا اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے کہا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ بہت سنگین ہیں۔
اسرائیل کے پبلک سکیورٹی کے وزیرعمربارلیف نے ایک ریٹائرڈ جج کی قیادت میں سرکاری تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا ہےجو’’زیربحث برسوں میں شہری حقوق اوررازداری کی خلاف ورزی کی گہرائی سے تحقیقات کرے گا‘‘۔انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مبیّنہ خلاف ورزیاں سابقہ حکومتوں میں سابق عہدے داروں کے تحت کی گئی تھیں۔
کیلکالسٹ کا کہنا ہے کہ یہ اسپائی ویئر ان کے بیٹے اونر، ان کے 2 کمیونیکیشن ایڈوائزر اور کیس میں ایک رمدعاعلیہ کی اہلیہ کے رجسٹرڈ فونز کو ہیک کرنے کے لیے استعمال کیا –
اخبارکی رپورٹ کے مطابق وہ سب ان متعدد اہم شخصیات میں شامل ہیں جنھیں اسپائی ویئرکا نشانہ بنایا گیا ہے۔ان میں کاروباری رہنما، کابینہ کی وزارتوں کے سابق ڈائریکٹرز اور میئرز شامل ہیں۔ان کے علاوہ معذورافراد کو بھی نہیں بخشا گیااوراسرائیل میں ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے یہود کی اقلیت کے احتجاجی مظاہروں کے منتظمین کو بھی جاسوسی کی اس مہم میں نشانہ بنایا گیا۔
پولیس نے اسرائیلی فرم این ایس اوگروپ کے تیارکردہ طاقتور پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا ہے۔اس اسپائی ویئرکومتعدد ممالک میں صحافیوں، کارکنوں اور سیاست دانوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی گروپ کو اب مختلف تنازعات کا سامنا ہے اوراس پرتنقیدکی جاری ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیلی پولیس نے کسی بھی تفتیش کے آغازسے پہلے اورعدالتی وارنٹ کے بغیرانٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے اسپائی ویئر کا استعمال کیا تھا البتہ یہ واضح نہیں ہواکہ نیتن یاہو کے اندرونی حلقے کوان کے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمے کے سلسلے میں نشانہ بنایاگیاتھا یا دیگروجوہات کی بنا پران کی جاسوسی کی گئی تھی۔نیتن یاہو خاندان کے ترجمان نے اس معاملے پرتبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
گذشتہ سال جون میں نیتن یاہو کی جگہ وزیراعظم بننے والے نفتالی بینیٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’پیگاسس اوردیگرمصنوعات’دہشت گردی اورسنگین جرائم‘کے خلاف جنگ میں اہم ہتھیار ہیں لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ انھیں اسرائیلی عوام یا عہدے داروں کو نشانہ بنانے کی جعلی مہمات میں استعمال کیا جائے-یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ واقعی کیا ہوا ہے‘‘۔
بینیٹ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پرعوام کے اعتماد میں کمی کے پیش نظریہاں ایک اہم موقع ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کیا برقراررکھنے کی ضرورت ہے اورجو چیزدرستی کی متقاضی ہے،اسے درست کیا جائے۔
اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے اس معاملے کی تفصیلی اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہےانہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی جمہوریت نہیں کھونی چاہیے، ہمیں اپنی پولیس کو نہیں کھونا چاہیے اور یقینی طور پر ہمیں ان پر اپنا عوامی اعتماد بھی نہیں کھونا چاہیے-
نیتن یاہو اس وقت دھوکہ دہی، اعتماد کو توڑنے اور رشوت لینے کے الزامات پر 3 مقدمات کی زد میں ہیں ان کی تاریخی 12 سالہ حکمرانی کا خاتمہ گزشتہ سال جون میں اس وقت ہوا جب 2 سال سے بھی کم عرصے میں الیکشنز کے 4 سخت معرکوں کے بعد ایک مخلوط حکومت نے حلف اٹھایا۔
نیتن یاہو نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر طویل عرصے سے انہیں غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنانے کا الزام لگایا اور ان کے وکلا نے اس پر جواب طلب کیا ہےنیتن یاہو کے سیاسی مخالفین نے بھی اس معاملے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
شلومو فلبر نامی جس گواہ کا فون مبینہ طور پر ہیک کیا گیا تھا اس کی آنے والے دنوں میں گواہی دینے کی توقع ہے، امید کی جارہی ہے کہ نیتن یاہو کے وکلا اس کی گواہی میں تاخیر کی درخواست کریں گےیہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مبینہ طور پر جمع کیے گئے کسی بھی ثبوت کو نیتن یاہو کے خلاف استعمال کیا گیا یا نہیں۔
پولیس کمشنر کوبی شبتائی نے کہا کہ حالیہ رپورٹس کے بعد انہوں نے حکومت کو ایک جج کی سربراہی میں ایک آزاد تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی سفارش کی ہے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ تحقیقات کا مقصد اسرائیلی پولیس پر عوام کا اعتماد بحال کرنا اور اسرائیلی پولیس کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کو منظم کرنا ہونا چاہیے وہ پہلے ہی اٹارنی جنرل کی جانب سے شروع کی گئی تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔
ریاستی استغاثہ نے اس دوران نیتن یاہو کے وکلا کو بتایا ہے کہ وہ ان رپورٹس کی مکمل جانچ کر رہے ہیں۔
کیلکالسٹ نے کہا ہے کہ کم از کم کچھ معاملات میں کرائے پر ہیکرز دینے والی اسرائیلی کمپنی ‘این ایس او گروپ’ شامل ہےاس کمپنی کی فلیگ شپ پروڈکٹ ’پیگاسس‘ ہے جو اسے آپریٹ کرنے والوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے ہدف بنائے گئے موبائل فونز میں گھسنے اور اس کے ذریعے کیے جانے والے روابط سمیت ڈیوائس کے مواد تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار دیتا ہے-
حکام نے یہ نہیں بتایا کہ اس مقصد کے لیے کون سے اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا دیگراسرائیلی کمپنیوں نے بھی جاسوسی کے طاقتور آلات تیارکررکھےہیں۔
پیگاسس کے معاملے پر این ایس او کو بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کا تعلق دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سیاست دانوں کی جاسوسی سے ہے۔
اپنے کلائنٹس کو ظاہر نہ کرنے والے اس گروپ این ایس او کا کہنا ہے کہ اس کی تمام فروخت اسرائیل کی وزارت دفاع سے منظور شدہ ہے اور اس کی ٹیکنالوجی کو حکومتیں جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
این ایس او گروپ اپنے صارف ملکوں یا اداروں کی شناخت کوظاہر نہیں کرتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اسے اس انٹیلی جنس تک رسائی حاصل نہیں ہے،جو وہ (صارف)جمع کرتے ہیں۔وہ اس چیزکو بھی کنٹرول نہیں کرتا ہے کہ اس کی مصنوعات کس طرح استعمال کی جاتی ہیں۔اس کی تمام مصنوعات کی فروخت کی اسرائیل کی وزارت دفاع کی طرف سے منظوری دی جاتی ہے اور اس کی ٹیکنالوجی کو حکومتیں جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔








