بیلا روس: روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں یوکرینی وفد نے فوری سیز فائر اور فوج نکالنے کا مطالبہ کردیا۔
باغی ٹی وی : روس اور یوکرین کے درمیان آج پانچویں روز بھی جنگ جاری ہے اور اس دوران کئی یوکرینی شہر روسی افواج کے محاصرے میں ہیں یوکرین کی جانب سے بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں مذاکرات سے انکار اور پھر آمادگی کے بعد آج دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔
روس،یوکرین جنگ :زیر زمین پناہ گاہوں میں بچوں کی پیدائش
بیلاروسی کے سرحدی علاقے گومیل میں ہونے والے مذاکرات میں یوکرینی وفد کی قیادت وزیر دفاع اولیکسی ریزنیکوف کر رہے ہیں جبکہ یوکرینی صدر کے مشیر بھی شامل ہیں یوکرینی وفد فوجی ہیلی کاپٹر میں مذاکراتی مقام پر پہنچا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مذاکرات میں یوکرین نے روسی افواج کے فوری طور پر ملک سے نکلنے کا مطالبہ کیا جبکہ یوکرینی وفد نے روس سے فوری طور پر سیز فائر کا بھی مطالبہ کیا تاہم مذاکرات کے حوالے سے اب تک کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی مذاکرات میں ہونے والی کوئی اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔
ادھر روس کی جانب سے یوکرین میں اپنے فوجی بھیجے جانےکے بعد سے دنیا بھر سے مختلف ممالک یوکرین کی فوجی امداد کررہے ہیں الجزیرہ کے مطابق یوکرینی وزارت صحت نے دعویٰ کیا ہےکہ جنگ شروع ہونےکے بعد سے 350 سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں اقوام متحدہ کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے ساڑھے 3 لاکھ سے زائد یوکرینی شہری پولینڈ اور دیگر ہمسایہ ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔
یوکرین کا روس کے 5300 فوجی ہلاک اور29 طیارے مارگرانے کا دعویٰ
خیال رہے کہ عسکری قوت کے لحاظ سے دونوں ممالک کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ روس دنیا کی دوسری بڑی عسکری قوت ہونے کے باعث یوکرین سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ہے، ایسی صورتحال میں بہت سے ممالک ہیں جو روس کے خلاف دفاع کے لیے یوکرین کو اسلحہ اور دیگر عسکری سازو سامان فراہم کررہے ہیں یوکرین کی جانب سے امریکا اور یورپی اتحادیوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسے روس کے خلاف مزاحمت کے لیے ٹینک شکن میزائل اور طیارہ شکن اسٹنگر میزائل فراہم کیے جائیں۔
امریکا:
یوکرین کو فوجی امداد فراہم کرنے والے ممالک میں امریکا سرفہرست ہے، 25 فروری کو صدر بائیڈن نے یوکرین کے لیے اضافی فوجی امداد کا اعلان کیا جس کے تحت یوکرین کو 35 کروڑ ڈالر کی اضافی فوجی امداد فراہم کی جارہی ہے –
امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن کا کہنا تھا کہ روسی حملےکے خلاف امریکی پیکج میں ہلاکت خیز ہتھیاروں کی دفاعی امداد شامل ہوگی۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے مطابق یوکرین کو فراہم کیے جانے والے اسلحے میں ٹینک شکن سمیت متعدد ایسے ہتھیار ہیں جو فرنٹ لائن پر موجود یوکرینی فوجیوں کے کام آئیں گے، جب کہ امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق اسلحے میں طیارہ شکن میزائل بھی شامل ہیں۔
یوکرین:ایٹمی تنصیبات پرروس کے میزائل حملے:امریکہ اوراتحادیوں کی طرف سے سخت ردعمل
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے حالیہ کچھ عرصے میں یوکرین کو ایک ارب ڈالر سے زائد فوجی امداد فراہم کی گئی ہے۔
برطانیہ:
جنوری میں برطانوی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے یوکرین کو ٹینک شکن میزائل فراہم کرنےکا فیصلہ کیا ہےگذشتہ بدھ کو برطانوی وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا یوکرین کی عسکری امداد جاری رکھی جائےگی اور یوکرین کو مہلک دفاعی اسلحہ بھی فراہم کیا جائےگا۔
بورس جانسن کا کہنا تھا کہ روس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر یوکرین کو دفاعی امداد کا پیکج فوری طور پر فراہم کررہے ہیں، یوکرین کو فراہم کیے جانے والے اسلحے میں مہلک اور دفاعی دونوں طرح کے ہتھیار شامل ہیں۔
فرانس:
فرانس کی جانب سے یوکرین کی پہلے سے ہی عسکری امداد کی جارہی ہے اور اب فرانسیسی حکومت نے یوکرین کو مزید فوجی سازو سامان اور فیول فراہم کرنےکا فیصلہ کیا ہے فرانس کا کہنا ہےکہ یوکرین کی درخواست پر اسے دفاع کے لیے طیارہ شکن توپیں اور ڈیجیٹل اسلحہ فراہم کیا گیا ہے۔
پیوٹن کی نیوکلیئر فورسزکو تیار رہنے کی ہدایت،نیٹو اور امریکا کا شدید ردعمل
نیدرلینڈ:
ایک اور یورپی ملک نیدر لینڈ کی جانب سے یوکرین کو 200 طیارہ شکن اسٹنگر میزائل فراہم کیے جارہے ہیں اور اس حوالے سے ولندیزی حکومت نے جلد ازجلد میزائل فراہم کرنےکے لیے پارلیمنٹ کو خط لکھ دیا ہےنیدرلینڈ کی جانب سے یوکرین کو ٹینک شکن میزائل اور راکٹ بھی فراہم کیے جارہے ہیں اس کے علاوہ نیدرلینڈ جرمنی کے ساتھ مل کر یوکرین کے پڑوسی ملک سلواکیہ میں فضائی دفاعی نظام پیٹریاٹ بھیجنے پر بھی غور کر رہا ہے۔
جرمنی :
جرمنی کا شمارہ دنیا کے بڑے اسلحہ ساز ممالک میں ہوتا ہے، جرمنی کی جانب سے یوکرین کو ایک ہزار ٹینک شکن اور 500 طیارہ شکن اسٹنگر میزائل فراہم کیے جارہے ہیں جرمنی کے اس اقدام کو اس کی پالیسی میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جارہا ہےکیونکہ جرمنی طویل عرصے سے جنگ زدہ علاقوں میں اسلحےکی فراہمی پر پابندی کی پالیسی پرکاربند رہا ہے۔
جرمن چانسلر کا کہنا ہےکہ روس کی جانب سے یوکرین میں حملہ اہم موڑ ہے، اس موقع پر ہمارا فرض ہے کہ ہم یوکرین کو اس کے دفاع کے لیے ہرممکن امداد کریں۔
اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس میں روسی وفد نے یوکرین حملے پر معافی مانگ لی
کینیڈا:
کینیڈا کی جانب سے روسی حملےکے خلاف مزاحمت کے لیے یوکرین کو مہلک اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے اور اس کے علاوہ یوکرین کو تقریباً40 کروڑ امریکی ڈالر کا قرضہ بھی دیا جارہا ہے۔
سویڈن:
اسکینڈے نیوین یورپی ملک سویڈن بھی اپنی غیرجانبدار رہنے کی تاریخی پالیسی ختم کرتے ہوئے 5 ہزار ٹینک شکن راکٹ یوکرین کو فراہم کررہا ہے، اس کے علاوہ جنگ میں فوجیوں کے زیر استعمال عسکری سازو سامان اور بلٹ پروف جیکٹ بھی دی جارہی ہیں 1939 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب سویڈن نے جنگ زدہ ملک کو اسلحہ فراہم کیا ہے، آخری بار یہ تب ہوا تھا جب سوویت یونین نے 1939 سویڈن کے ہمسایہ ملک فن لینڈ پر حملہ کیا تھا۔
بیلجیئم اور پرتگال:
ایک اور یورپی ملک بیلجیئم نے بھی 3 ہزار سے زائد مشین گنیں، 200 ٹینک شکن میزائل اور ہزاروں ٹن فیول فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔جبکہ پرتگال کی جانب سے یوکرین کو رات میں دیکھنے والے چشمے ‘نائٹ ویژن گوگلز’ ، دستی بم، خودکار جی تھری بندوقیں اور دیگر اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔
یونان
یوکرین میں یونانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کے لیے موجود ہے جن میں سے حالیہ تنازعے میں 10 افراد قتل بھی ہوئے ہیں۔ یونان کی جانب سے یوکرین کو انسانی امداد کے ساتھ دفاعی آلات فراہم کیے جارہے ہیں۔
رومانیہ
یوکرین کے ہمسایہ ملک رومانیہ نے اپنے 11 فوجی اسپتال یوکرین سے آنے والے زخمیوں کے لیے مختص کردیے ہیں، اس کے علاوہ رومانیہ یوکرین کو فیول سمیت 33 لاکھ ڈالرکا فوجی سازوسامان فراہم کررہا ہے۔
یوکرین بغیر کسی پیشگی شرط کے روس کے ساتھ امن مذاکرات پر تیار
اسپین
ہسپانوی حکومت نے بلٹ پروف جیکٹوں سمیت دیگر دفاعی آلات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، اس کے علاوہ یوکرین کے لیے طبی سازوسامان اور کھانے پینے کا سامان بھجوایا جارہا ہے۔
چیک ریپبلک
چیک ریپلک کی حکومت نے 4 ہزار مارٹر گولے فوری طور پر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، اس کے علاوہ ہزاروں بندوقیں، خودکار مشین گنیں، اسنائپر رائفلز اور لاکھوں گولیاں فراہم کی جارہی ہیں۔
ادھر نیٹو چیف اسٹولٹن برگ نےکہا ہےکہ یوکرین کےدفاع کےلیے پہلی بار نیٹو ریسپانس فورس فعال کی ہے،جس کے لیے امریکا 6 ارب ڈالر مختص کرےگا،یہ ریسپانس فورس مشرقی یورپ میں تعینات ہوگی۔
دوسری جانب سوال اٹھ رہا ہےکہ 30 ممالک پر مشتمل سیاسی و عسکری اتحاد نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) یوکرین کے دفاع کے لیے اپنی فوجیں بھیجے گا یا نہیں؟
واضح رہے کہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سابقہ سوویت یونین میں شامل اکثر یورپی ممالک نے نیٹو میں شمولیت اختیار کرلی تھی جب کہ یوکرین نیٹو کارکن تو نہیں بنا تاہم اس حوالے سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور روس اس کا شدید مخالف رہا ہے روس کی جانب سےکریمیا کے تنازع میں کردار اور حالیہ تنازع کے بعد سے نیٹو نے یوکرین کو اس کے دفاع کے لیے متعدد یقین دہانیاں کروائی ہیں
یورپ کا روس کے خلاف اتحاد:فضائی راستے بند:روسی طیارے گزریں گے توگرا دیں گے:جرمنی…
ایسی صورتحال میں ایک برطانوی شہری نےبرطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سوال کیا کہ وہ کون سا وقت ہوسکتا ہے جب نیٹو کے رکن ممالک کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور وہ یوکرین کی مدد کے لیے فوجیں بھجوانے پر رضامند ہوجائیں؟
کیف میں موجود بی بی سی کے انٹرنیشنل ڈیسک کے چیف رپورٹر لائز ڈاؤسٹ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ نیٹو کے رکن ممالک روس کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے خبردار کیا ہےکہ ان کا عسکری دفاعی اتحاد اپنے رکن ممالک کی زمین کے ہر انچ کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نیٹو ممالک نے یوکرین میں اسلحہ اور فوجی سازو سامان بھجوایا ہے اور انہوں نے حالیہ برسوں میں یوکرینی فوجیوں کو تربیت بھی فراہم کی ہے، جو کہ روسی حملےکے خلاف یوکرین کے دفاع کے لیے کیا گیا اقدام ہے تاہم ان کی جانب سے مسلسل یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یوکرینی زمین پر نیٹو کا کوئی فوجی نہیں بھیجا جائےگا کیونکہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے، البتہ اگر روس یوکرین سے آگے نیٹو کے رکن ممالک کی طرف بڑھتا ہے تو صورتحال بدل سکتی ہے۔
لائز ڈاؤسٹ کے مطابق اگر ایسا ہوا تو دنیا ایک غیر یقینی صورتحال میں داخل ہوجائےگی جس میں روس اور نیٹو کے تصادم کا خطرہ خطرناک حد تک بڑھ جائےگا۔
خیال رہے کہ نیٹو کے آئین کے مطابق اگر کسی ایک رکن ملک پر حملہ ہو تو وہ تمام اتحادیوں پر حملہ تصور کیا جائےگا۔