فرعون کا شاہی خنجر شہاب ثاقب سے حاصل کردہ لوہے سے تیار کیا گیا تھا، ماہرین

0
62

قاہرہ : جاپان اور مصر کے ماہرین نے فرعون توتنخ آمون کے مقبرے سے ملنے والے ایک شاہی خنجر کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ اسے شہابِ ثاقب سے حاصل کردہ لوہے سے تیار کیا گیا تھا۔

باغی ٹی وی:’میٹیورائٹس اینڈ پلینٹری سائنس‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع مقالے کے مطابق اس خنجر کا دستہ سونے سے بنا ہے جس میں موتی جڑے ہیں جبکہ اس کا پھل لوہے کا ہے جس پر سیاہی مائل داغ دھبے پڑ چکے ہیں-

اردن کے‌صحرا میں 9000 سال قدیم مزاردریافت

آئرن ایج وہ وقت تھا جب لوگوں نے آئرن پروسیسنگ ٹیکنالوجی حاصل کی تھی اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 1200 قبل مسیح کے بعد شروع ہوا تھا لوہے کے شہابیوں سے بنے کچھ پراگیتہاسک لوہے کے نمونے کانسی کے زمانے کے ہیں۔

قدیم مصر کے بادشاہ توتنخمین (1361-1352 قبل مسیح) کے مقبرے میں ایک اچھی طرح سے محفوظ شدہ میٹیوریٹک لوہے کا خنجر ملا تھا۔ پھر بھی، اس کی تیاری کا طریقہ اور اصلیت غیر واضح ہے یہاں، ہم قاہرہ کے مصری میوزیم میں کیے گئے توتنخمین لوہے کے خنجر کے غیر تباہ کن دو جہتی کیمیائی تجزیوں کی اطلاع دیتے ہیں۔

توتنخ آمون، جسے اکثر ’توتن خامن‘ بھی کہا جاتا ہے، اٹھارواں اور آخری فرعون تھا جو آج سے 3,300 سال پہلے مصر پر حکمران تھا اس کا عظیم الشان مقبرہ 1925 میں دریافت ہوا تھا جس میں سے ہزاروں قدیم اشیاء برآمد ہوئیں، جن پر آج تک تحقیق جاری ہے توتنخ آمون کا شاہی خنجر بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔

ترکی: ’بسم اللہ‘ کی خطاطی سے مزین 19 کروڑ سال پرانا سنگ مرمر پتھردریافت

تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوچکا تھا کہ یہ خنجر اصل میں شادی کا تحفہ تھا جو توتنخ آمون کے دادا ایمن ہوتپ سوم کو سلطنت ’میتانی‘ کے بادشاہ نے دیا تھا جو نسل در نسل ہوتے ہوئے بالآخر توتنخ آمون تک پہنچا تھا۔

فروری 2020 میں قاہرہ عجائب گھر اور جاپان کے ’چیبا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ کے ماہرین نے اس خنجر کے بارے میں مزید باتیں جا ننے کےلیے جدید ایکسرے آلات استعمال کئے اس سے پہلے 2016 میں اس خنجر کے پھل پر لگے دھبوں میں نکل اور کوبالٹ دھاتوں کی معمولی مقداریں دریافت ہوچکی تھیں جدید ایکسرے آلات سے 2020 میں نئے مشاہدات سے ان ہی دھبوں میں سلفر، کلورین، کیلشیم اور زِنک بھی معمولی مقدار میں دریافت ہوئے۔

فرعون کا زمانہ وہ تھا کہ جب فولاد سازی کو بہت خاص ہنرسمجھا جاتا تھاجبکہ لوہے/ فولاد سے بنے خنجروں اور تلواروں کو شاہی تحائف کا درجہ حاصل تھا۔

مصرمیں مٹی کی تختیوں پر لکھی گئی صدیوں پرانی ’ڈائریاں‘ دریافت

نئی تحقیق سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اس خنجر کو تقریباً 950 ڈگری سینٹی گریڈ پر کسی بھٹی میں ڈھالا گیا تھا، وہیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس میں معمولی مقداروالےمادّے (ٹریس مٹیریلز) ٹھیک اسی ترتیب میں ہیں کہ جیسی’فولادی شہاب ثاقب‘ میں ہوتی ہے اس قسم کےشہابیوں میں دوسرے مادوں کی نسبت لوہے کی مقدار خاصی زیادہ ہوتی، جس کی وجہ سے انہیں لوہے والے یعنی ’فولادی شہابِ ثاقب‘ بھی کہا جاتا ہے جاپان میں ایسا ہی ایک شہابِ ثاقب کچھ سال پہلے دریافت ہوچکا ہے۔

توتنخ آمون کے شاہی خنجر اور اس شہابیے میں ٹریس مٹیریلز کی ترکیب بالکل یکساں ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خنجر کی تیاری کےلیے جس جگہ سے بھی کھدائی کرکے کچدھات نکالی گئی تھی، وہاں شاید لاکھوں کروڑوں سال پہلے کوئی فولادی شہابِ ثاقب ٹکرا چکا تھا۔

عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ لوہے کا زمانہ تقریباً 1200 قبلِ مسیح میں شروع ہوا تھا لیکن اس خنجر میں لوہے کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شاید لوہے کے زمانے کا آغاز 1400 قبلِ مسیح کے آس پاس ہوچکا تھا۔

وادی سوات میں بدھ مت کی قدیم ترین عبادت گاہ دریافت

Leave a reply