سیاسی شب دیگ اور پی ٹی آئی کے لوٹے ۔۔۔تحریر: نوید شیخ

0
50

سیاسی دیگ اس وقت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چولہے پر چڑھی ہوئی ہے ۔ ہر کوئی اپنی مرضی کے مصالحے اور اشیاء اس میں ڈالتا جا رہا ہے ۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ قورمہ بن رہا ہے ، بریانی پک رہی ہے یا پھر متنجن ۔۔۔

۔ اس تمام سیاسی ہلچل میں شہباز شریف نے ایک نیا فارمولہ دے دیا ہے کہ ہمیں پانچ سال کیلئے قومی حکومت بنانی چاہیے مگر قومی حکومت میں پی ٹی آئی شامل نہ ہو۔ پتہ نہیں یہ تمام اپوزیشن کی مشترکہ سوچ ہے یا پھر صرف شہباز شریف کی سوچ ۔۔۔ ۔ بہرحال جب سے ایمپائر نیوٹرل ہوا ہے کپتان کی حکومت ریت کی دیوار ثابت ہوتی دیکھائی دے رہی ہے ۔ ایک ایک کرکے روز کوئی نہ کوئی پیادہ یا تو داغا دے رہا ہے ۔ یا پھر کپتان کو ایک لمبی لسٹ تھما رہا ہے کہ یہ پوری کرو تو ساتھ دوں گا ۔ ۔ مگر کپتان بھی کپتانوں کے کپتان ہیں وہ روز جلسے کررہے ہیں ۔ دھمکیاں اور تڑیاں لگا رہے ہیں ۔ یوں ملکی موسم کے ساتھ سیاسی موسم بھی تیزی سے گرم ہوتا جا رہا ہے ۔

۔ تازہ تازہ سوات کے جلسے میں عمران خان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں لوگ نوٹوں کے بیگ لے کر ضمیر خریدنے بیٹھے ہیں۔ اب اتنے وثوق سے جب وہ یہ عوام کے سامنے دعوے کر رہے تھے تو ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایف آئی اے ، نیب ، اینٹی کرپشن یا دیگر اداروں نے بھنگ پی ہوئی ہے جو ان کو نہیں پکڑ پا رہے ہیں ۔ اور کپتان کس بنیاد پر روز کسی نہ کسی کی پگڑی اچھال رہے ہیں اور جب ایسے ہی اشارے یا باتیں ان سے منسوب کی جاتی ہیں یا پھر مخالفین ان کے گھر یا ذاتی زندگی کی جانب اشارہ کرتے ہیں تو کپتان کے تمام کھلاڑی یوں اچھالنا شروع کر دیتے ہیں جیسے ابلتے ہوئے انڈے اچھلتے ہیں ۔ ۔ دوسرا اگر کپتان کے اردگرد سب ہی بے ضمیر لوگ ہیں جن کی نوٹوں کی بوریاں دیکھ کر رالیں ٹپکنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ تو پھر کپتان نے کون سی ٹیم بنائی ہے اور کپتان کی وہ دور اندیشی کہاں گئی ۔ جو وہ قوم کو بتایا کرتے تھے ۔ کہ ان سے بہتر ٹیم کوئی بنا ہی نہیں سکتا ۔ دراصل جیسا حال کپتان نے ملک کا کیا ہے ویسا ہی حال ان کی اپنی پارٹی کا بھی ہے ۔ اب سے پہلے تو صرف خفیہ کالوں کی کرامات تھیں ۔ جب سے یہ ٹیلی فون نمبر بند ہوئے ہیں ۔ تب سے ہی یہ حالت ہوئی ہے کہ بقول شیخ رشید پانچ سیٹوں والے بھی آنکھیں دیکھا رہے ہیں ۔ ۔ پھر کپتان جو کہہ رہے تھے کہ قوم پر لازم ہے کہ برائی کے خلاف کھڑی ہو، الیکشن کمیشن سے بھی پوچھتا ہوں کہ کیا آئین میں ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہے؟۔ یہ جو الیکشن کمیشن کو للکار رہے تھے ۔ کوئی ثبوت تو دیں جس پر وہ کاروائی کرسکے ۔ کیا خالی بیانات اور جلسوں میں تقریروں کو ہی ثبوت مان لیا جائے ۔ ۔ پھر اگر وہ سچے ہیں بھی تو سوال یہ ہے کہ کپتان نے پہلے لوٹوں کو پارٹی میں اکٹھا کیوں کیا ۔ اور جب ان کی اصلیت ان کو معلوم ہوگئی ہے تو پھر یہ ایکشن کیوں نہیں لیتے ۔ باتیں کرنا بہت آسان ہے سچ اور حق کے ساتھ کھڑے ہونا اتنا ہی مشکل ہے کیونکہ مسئلہ کرسی کا ہے ۔ کپتان نے کرسی کی خاطر جتنے یوٹرن لیے ۔ تمام دنیا جانتی ہے ۔ اب بھی جتنے جتن کپتان اس کرسی کو بچانے کے لیے کررہے ہیں وہ بھی سب کو معلوم ہوگئے ہیں۔

۔ یہ جو کپتان سمیت باقی کھلاڑیوں کو مزاحمتی سیاست کرنے کا بخار چڑھا ہوا ہے تو سچائی میں انکو بتا دوں کہ پی ٹی آئی مزاحمتی جماعت نہیں ہے۔ ذرا تلاش کیجیے، کتنے ایسے ہیں جو جیل جا سکتے ہیں۔ نیب اور ایف آئی اے گرفتاریاں برداشت کرسکتے ہیں ۔ عمران خان خود بھی ابھی تک جیل نہیں گئے۔ پھر ان کے ساتھ سیاسی لوگ نہیں ہیں، سب چوری کھانے والے دیہاڑی باز ہیں۔ ان سب نے عمران خان کو تب جوائن کیا تھا جب سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ اگلی باری عمران خان کی ہے۔

۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی مزاحمتی سیاست نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی سیاسی نظریہ ہے۔ اقتدار میں گورا ہو، کالا ہو، داڑھی والا ہو یا کلین شیو ہو، یہ لوگ اس کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ ان کی تربیت ہی ان خطوط پر ہوئی ہے کہ ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرنا اور وہ نسل در نسل یہی سیاست کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس لیے اقتدار ختم ہونے کے بعد عمران خان کا ساتھ دینا ان کے منشور کے خلاف ہے ۔۔ سچ یہ ہے کہ بیساکھیاں ہٹ گئیں تو اپنے ارکان بھی ریت کے ذروں کی طرح مٹھی سے نکلنے لگے ہیں اور اتحادیوں کی نہ صرف آنکھیں بدل گئیں ہیں بلکہ انھوں نے آنکھیں دکھانا شروع کردیں، پہلے حکومت کا کھل کر ساتھ دینے سے گریز کیا،پھر اپوزیشن سے پینگیں بڑھانے لگے اور اب تو انھوں نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ ۔ عمران خان پرلے درجے کے بے اصول ہیں۔ انھوں نے اپنے مفاد اور اقتدار کے لیے قانون، ضابطہ، اقدار، اخلاق اور جمہوری روایات سمیت ہر چیزکو روند ڈالا ہے۔ کپتان تقریروں میں تو پنجابی فلموں والے سلطان راہی بن جاتے ہیں مگر عملی طور پر وہ اپنے مفاد کے لیے جھکنا تو کیا، مکمل طور پر لیٹ جاتے ہیں۔۔ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عمران خان صاحب نے اپنے چارسالہ اقتدار میں ملک کی معیشت کوبرباد کردیا ہے۔ بلکہ لوگ چینخ رہے ہیں کہ ستر سالوں میں اس سے بری گورننس نہیں دیکھی۔ پولیس، انتظامیہ، ایف آئی اے، ایف بی آر، نیب اور اینٹی کرپشن کے اداروں کو اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے جس طرح اس دور میں استعمال کیا گیا ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی ۔۔ پھر جتنی کرپشن اس دور میں بڑھی ہے اس سے پہلے ایسی مثالیں کم ملتی ہیں ۔ کرپشن کے الزامات کی زد میں آنے والے وزیروں اور مشیروں کو جیسے اس دور میں تحفظ دیا گیا کیا کبھی ایسا پہلے ہوا ہے ۔ ۔ میرا سوال ہے کہ مجھے کوئی ایک ادارہ بتا دیں جہاں بغیر رشوت کے آپ کا کام ہوجائے ۔ کپتان نے اپنے ہر دوست کو اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا ۔ اقرباء پروری اور میرٹ کے قتل کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی ۔ ۔ آج اگر عام پاکستانی دو وقت روٹی کھائے تو بجلی اور گیس کے بل ادا نہیں کرسکتا، بل ادا کرے تو دوائیوں کا خرچہ نہیں اُٹھا سکتا۔ کسان بے چارے کھاد کی تلاش میں رُل گئے ہیں ۔ مگر آج بھی کپتان زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے کی جھوٹی کہانیاں سنا رہا تھا ۔ ۔ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں نے بڑے بڑے علماء پر مغرب زدہ محمد علی جناح کواس لیے ترجیح دی تھی کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کیا، جو کہا اس پر عمل کر کے دکھایا۔ کپتان کی طرح نہیں جو یوٹرن کو لیڈر کی خوبی سمجھتا ہو۔

۔ کپتان کا موجودہ غصہ اُن کے اندرونی اضطراب، گبھراہٹ اور فرسٹریشن کی غمازی کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے وزرائے اعظم اقتدار سے محروم ہوئے ہیں ۔ مگر انھوں نے ایک باوقار طریقے سے اقتدار چھوڑا۔ ہاؤس کی اکثریت یوسف رضا گیلانی کے ساتھ تھی مگر ایک معمولی بات پر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انھیں توہین عدالت پر سزا دے کر معزول کردیا اور وہ کوئی واویلا مچائے بغیر پرائم منسٹر ہاؤس سے باہر آگئے۔۔ نوازشریف کو ایوان کی دوتہائی اکثریت حاصل تھی مگر جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہ میں سپریم کورٹ کے بینچ نے انھیں تاحیات نااہل قراردے دیا، مگر وہ پرسکون رہے۔ نہ پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرنے کی کال دی اور نہ ہی اسپیکر کو کوئی غیر آئینی اقدام اُٹھانے پر مجبور کیا، مگر اب تو لگتا ہے کپتان نے حکومت اور اقتدار کو زندگی موت کا مسئلہ بنالیا ہے، سب کو نظر آرہا ہے کہ وہ ایوان کی اکثریت کھو ہوچکے ہیں،زیادہ تر اتحادی ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور اپنے بہت سے ارکان باغی ہوچکے ہیں۔۔ اس صورت میں اُن کے لیے باوقار راستہ یہ تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتے یا مڈٹرم الیکشن کا اعلان کردیتے۔ اس سے ان کی سیاسی ساکھ اور عزت بچ سکتی تھی مگر لگتا ہے کہ وہ اقتدار سے محرومی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ اس کے لیے وہ ہر حربہ استعمال کررہے ہیں۔ اپوزیشن اپنا آئینی حق استعمال کررہی ہے مگر پرائم منسٹر غصے اور فرسٹریشن میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ سیاسی مخالفین کی نقلیں اُتار رہے ہیں اور انھیں توہین آمیز القاب سے نواز رہے ہیں۔

۔ عمران خان جس راستے پر چل رہے ہیں وہ انارکی اور تباہی کاراستہ ہے۔ اس پر چل کر نہ ان کی حکومت بچے گی اور نہ سیاست۔ کیونکہ کپتان کا ماننا ہے کہ ایمپائربغیر نہ کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا ۔ ۔ عمران خان ہر صورت اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں،اس طرح کا رویہ اور بیانات فاشزم کو پسند کرنے کا اظہار ہے جس کے نتیجہ میں جمہوری نظام کا مستقبل خطرہ میں نظر آرہا ہے۔ ۔ غلطیاں ان کی اپنی ہیں یہ سیاست میں بھی اناڑی ثابت ہوئے ہیں ۔ یہ جو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں غیر ضروری تاخیر کی گئی ہے اسکا حکومت کو فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہوا ہے۔۔ کیونکہ اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کا موقع مل گیا ہے۔ اگر قومی اسمبلی کا فوری اجلاس بلا لیا جاتا تو شاید اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں کو منانے کا اتنا وقت نہیں ملتا۔اب ہر گزرتا دن عمران خان کی سیاسی طاقت کو کمزورکر رہا ہے۔۔ اس وقت تمام اشارے عمران خان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کی طرف ہی نظر آرہے ہیں۔ باقی وقت بتائے گا کہ کیا وہ کوئی سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ہیں کہ نہیں۔

Leave a reply