ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ سے ، کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں ایک گنجان آباد علاقے سورا کے نوجوان داخلی مقامات پر چوبیس گھنٹے چوکس رہتے ہیں۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران کتنے کشمیری گرفتار ہوئے ، اے ایف پی نے بتا دیا
خبررساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ہر ایک راستے کو عارضی طور پر اینٹوں ، نالیدار دھات کی چادروں ، لکڑی کے تختوں اور درختوں کے تنوں سے بلاک کیا گیا ہے۔ سنگ بازکشمیری نوجوان رکاوٹوں کے پیچھے جمع ہوتے ہیں جس کا مقصدبھارتی سیکیورٹی فورسز اور خاص طور پر نیم فوجی دستوں کو علاقے سے باہر رکھناہے۔

ہماری کوئی آواز نہیں ہے۔ 25 سالہ اعجاز نے بتایا ، جنھوں نے رائٹرز کے انٹرویو میں سورہ کے بہت سے دوسرے شہریوں کی طرح صرف ایک نام بتایا کہ انھیں گرفتاری کا خدشہ ہے۔ اگر دنیا بھی ہماری بات نہیں مانے گی تو ہم کیا کریں؟ بندوقیں اٹھاو؟

تقریبا پندرہ ہزارنفوس پر مشتمل سورا ، ہندوستانی حکومت کی خودمختاری کو ختم کرنے کے منصوبے کی مزاحمت کا مرکز بن رہا ہے ۔ یہ علاقہ ہندوستانی سکیورٹی فورسز کے لئے نو گو زون بن گیا ہے۔

رائٹرز کے مطابق حکومت کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی ، کشمیر کو مکمل طور پر ہندوستان میں ضم کرنے ، بدعنوانی اور اقربا پروری سے نمٹنے اور اس کی ترقی کو تیز کرنے کے لئے ضروری تھی ۔دوسری طرف اس قصبہ میں مودی کے اس اقدام کی حمایت کرنے والے کسی کو تلاش کرنا مشکل ہے۔ گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران رائٹرز کو انٹرویو دینے والے دو درجن سے زائد شہریوں نے بھارتی وزیراعظم کو ظالم کہا۔

آئینی ترمیم سے غیر مقیم افراد کو جموں و کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مقامی حکومت میں ملازمتوں کے لئے درخواست دینے کی اجازت ہوگی۔

سورہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران نیم فوجی پولیس سے جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

رائٹرز نے مزید لکھا ہے سری نگر میں ،حکومت نے چار سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کررکھی ہے ، لوگوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لئے کئی طرح کے روڈ بلاک لگائے ہیں جبکہ 500 سے زائد سیاستدانوں ، برادری کے رہنماوں اور کارکنوں کو حراست میں لیا ہے۔ پورے شہر اور وادی کشمیر کے باقی حصوں میں انٹرنیٹ اور سیل فون کی سروسز گذشتہ دو ہفتوں سے بند ہیں جس کی وجہ سے حکومتی فیصلے کے مخالفین کو احتجاج کا اہتمام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

متوسط طبقے پر مشتمل سورا کے علاقے میں بھارتی فوج کے خلاف استعمال کرنے کے لیے پتھروں اور اینٹوں کے ڈھیر موجود ہیں۔

دوسری طرف جموں وکشمیر حکومت کے ترجمان نے رائٹرز کے سوالات کے جواب دینے سے انکار کردیا۔

بھارتی وزارت داخلہ نے بھی کسی کالز یا ای میل کا جواب نہیں دیا۔

Shares: