اس سال خطبہ حج رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل دیں گے

0
85

اس سال میدان عرفات مسجد نمرہ سے حج کا خطبہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل اور دانشور شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی دیں گے۔

باغی ٹی وی : عرب میڈیا کے مطابق ایوان شاہی نے حج کا خطبہ دینے کےلیے رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل کے نام کی منظوری دی ہے۔

حج کا خطبہ مسلمانان عالم کے ساتھ دنیا بھر کے انسانوں کے لیے اسلام کا انسانیت نواز پیغام ہوتا ہے اس حوالے سے ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی عالمی معاشرے کو درپیش مسائل کے اسلامی حل پیغامات کی صورت میں پیش کریں گے۔

رابطہ عالم اسلامی کی ویب سائٹ کے مطابق شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی 12 اگست 2016 کو سیکریٹری جنرل تعینات کیے گئے تھے وہ اسلامی فقہ کے تقابلی مطالعے میں گریجویشن ہیں۔ وہ آئینی قانون اور جنرل قانون کے مطالعات اور تقابلی عدالتی مطالعات میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ہیں۔

اسلامی فقہ اور جدید قانون پر مملکت کے اندر اور باہر اہم علمی و فکری و تحقیقی اداروں میں لیکچرز دیتے رہتے ہیں۔
رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل سعودی عرب، خصوصاً امریکہ اور یورپی ممالک میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کا زبانی امتحان لیتے ہیں۔

ڈاکٹر العیسی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں جبکہ فقہی، قانونی و فکری اور انسانی حقوق کے موضوعات پر مدلل علمی مقالات، معتبر مجلات میں شائع کرتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر العیسی عدلیہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل بننے سے قبل اعلی عدالت کے سربراہ کےعہدے تک پہنچ چکے تھے۔

متعدد ممالک اور عالمی اداروں و تنظیموں سے ایوارڈز حاصل کیے ہوئے ہیں۔ ملائیشیا وفاقی روس، سینیگال، سری لنکا، مصر، متحدہ عرب امارات، پاکستان، بلغراد وغیرہ ممالک سے اعزاز حاصل کیے ہوئے ہیں۔ لاہور پاکستان کی مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دیئے ہوئے ہے۔

واضح رہے کہ رابطہ عالم اسلامی عالم اسلام کی ہمہ گیر اور وسیع ترین عوامی تنظیم ہے۔ عالم اسلام کے بائیس ممالک کے ممتاز علما اور داعیانِ دین کا ایک نمائندہ اجلاس 14/ذی الحجہ1381ھ بمطابق 18/مئی 1962ء کو مکہ مکرمہ میں منعقد ہوا جس میں رابطہ عالم اسلامی کے قیام کی قرارداد منظور کی گئی۔

رابطہ عالم اسلامی کے قیام کا مقصد دعوت دین اور اسلامی عقائد و تعلیمات کی تشریح اور ان کے بارہ میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات یا معاندین اسلام کے اعتراضات کو بہتر طریقہ سے زائل کرنا ہے اور اس عالمی پیمانہ کی تنظیم کے توسط سے مسلمانانِ عالم کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے اور ان کے تعلیمی و ثقافتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے مالی تعاون فراہم کرنے کا کا راستہ ہموار کیا گیا۔ رابطہ عالم اسلامی کسی بھی نوع کے تشدد اور دہشت سے لاتعلق ہو کرعالمی تہذیبوں کے افراد سے مکالمہ و گفتگو کا طریقہ کار اختیار کرتا ہے۔

کبار علما دین اور داعیان اسلام کی مجلس اعلیٰ جو عالم اسلام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔

مجلس تاسیسی، یہ رابطہ علام اسلامی کی تجاویز کو روبہ عمل لانے کے لیے امین عام کے لیے رہنما خطوط متعین کرتی ہے۔ اس مجلس کے ارکان کی تعداد ساٹھ ہوتی ہے جو عالم اسلام کی نمایاں شخصیات ہوتی ہیں۔ ان کا انتخاب مجلس تاسیسی میں ہی عمل میں آتا ہے اور کسی بھی ملک سے صرف دو ممبر ہی نامزد کیے جاسکتے ہیں۔

مجلس اعلیٰ عالمی برائے مساجد۔ عالمی پیمانہ پر مساجد کی تعمیر و نگرانی اور ان کی آبادی کے لیے فکرمندی، ائمہ، خطباء وغیرہ کی تربیت، اوقاف کا تحفظ وغیرہ جیسے امور و مسائل دیکھتی ہے اور اس کے عالمی پیمانہ پر چالیس ارکان نامزد کیے جاتے ہیں۔

بنیادی طور پر عالم اسلام کے کبارعلماء اور داعیانِ دین کی مجلس ہی رابطہ عالم اسلامی کی مجلس حاکمہ ہے جس کے اب تک چار اجلاس ہائے عام ہوچکے ہیں۔

پہلا اجلاس عام1381ھ مطابق 1962ء جس میں رابطہ عالم اسلامی کی تجویز منظور ہوئی، دوسرا اجلاس عام 1384ھ مطابق 1965ء جس میں اتحاد اسلام کی اہمیت و ضرورت اور خارجی افکار و نظریات سے اجتناب کی تجاویز منظور کی گئیں۔

تیسرا اجلاس عام 1408ھ مطابق 1987ء، اس اجلاس کی اہم قراردادوں میں حرمین شریفین کی عظمت، اشہرحرم اور شعائر حج کی تقدیس اور مسلم حکمرانوں کا شعائر اللہ سے خاص تعلق وغیرہ تھیں جبکہ چوتھا اجلاس عام 1423ھ مطابق 2002ء، اس اجلاس کی اہم تجاویز وحدت امت، دعوت الی اللہ، میثاق مکہ اور قضیہ فلسطین وغیرہ منظور ہوئیں۔

رابطہ عالم اسلامی کا صدر دفتر اولِ روز سے مکہ مکرمہ میں ہے اور اس کے موجودہ سیکریٹری جنرل اور دانشور شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی ہیں رابطہ عالم اسلامی کا امین عام اپنےمعاون امناء کے توسط سےرابطہ کی تمام کارگزاریوں کا اصل نگراں ہوتا ہے۔ وہ مجلس تاسیسی کے متعین کردہ خطوط و ہدایات کی روشنی میں تمام شعبوں کے عملی کاموں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

Leave a reply