پاکستان بھر میں جمعہ کو سرکاری طور پر مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن منایا گیا۔ پاکستان کے طول وعرض میں لاکھوں پاکستانیوں نے باہر نکل کر مظلوم کشمیریوں کو اپنے ہر ممکن مدد اور تعاون کا یقین دلایا۔ لیکن اس موقع پر کئی ایسے رہنما بھی تھے جن کا ماضی میں کشمیرکمیٹی یا حکومت سے تعلق رہا ہے لیکن وہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے نظر نہیں آئے۔
کشمیریوں سے یکجہتی، ملک بھر میں کشمیر آور منایا گیا، پاکستانیوں نے تاریخ رقم کر دی
ان میں ایک نام کشمیر کمیٹی کے سابق چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام (ف ) کے سربراہ فضل الرحمن کا ہے جو دس سال سے زیادہ عرصہ تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ مولانا فضل الرحمن جو عمران حکومت کے خلاف تو روز بیان دیتے رہتے ہیں لیکن کل مظلوم کشمیریوں کے لیے سٹرک پر نہ آسکے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جو کہ تین مرتبہ پنجاب کے وزیراعلی رہ چکے ہیں، وہ بھی کل منظر عام سے غائب رہے۔شہباز شریف خود کشمیری ہیںلیکن وہ کشمیریوں کی حمایت میں روڈ پر نہ نکل سکے۔

ماضی میں جماعت اسلامی پاکستان میں کشمیریوں کی وکیل سمجھی جاتی رہی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نہ نکلنا بہت سوں کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ماضی میں ’مودی کا جو یار ہے غدار ہے‘ کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔وہ مخالف سیاستدانوں کو اس بات پر تنقید کا بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔ کل جمعہ کو جب ساری قوم کشمیریوں کے لیے یک آواز تھی ، بلاول کی آواز اس میں کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے وہ وزرا جو ہر موضوع پر پریس کانفرنس کرتے رہتے ہیں وہ بھی خاموش تھے۔

اسی طرح ماضی محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی بھی کسی نہ کسی طریقے سے حکومت میں رہے ہیں لیکن کل وہ بھی منظر عام سے غائب تھے۔

ایسے میں پاکستانی قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا مسئلہ کشمیر صرف پاکستانی عوام کا ہے؟

Shares: