کسی فرد کی غلطی کو ادارہ پر مسلط نہ کیا جائے. غوث بخش مہر

نیوز ایڈیٹر؛ ملک رمضان اسراء
0
48

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں سب سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کی گئی جبکہ بعدازاں گزشتہ دنوں شہید ہونے والے پاکستان فوج کے نوجوانوں کیلئے دعا کی گئی جس کے بعد اسپیکر اسمبلی نے کچھ ممبران اسمبلی کی طرف سے مانگی گئی رخصت کی درخواستیں مشترکہ اجلاس میں شامل ممبران کو پڑھ کر سنائیں اور پھر انہوں نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان سے بات کرنے کا کہا گیا.

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو بحران قوم کو درپیش ہے وہ کبھی نہیں تھا کہ لیکن پی ٹی آئی کا سربراہ عمران خان پچھلے کئی سال سے ملک میں انارکی اور انتشار پھیلانے کی کوشش کررہا ہے اور انہوں نے ہی ملک میں یہ سب کچھ جو آج پھیلایا ہے اور اس کا یہ خود زمہ دار ہے. وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک کو سیاسی،انتظامی،عدالتی بحران درپیش ہے،حالات خراب نہیں لیکن خراب کرنےکی کوشش کی جارہی ہےملک میں عدالتی بحران پیداکیاجارہاہے جبکہ پارلیمنٹ ان3نقاط پربحث کرےاوررہنمائی دے۔حکومت،قوم اوراداروں کو3نقاط پررہنمائی کی ضرورت ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا پارلیمنٹ کسی بھی اختیارکوبڑھا اور کم کرسکتی ہے،پارلیمنٹ کوآئین میں ترمیم کابھی اختیارہے،ان اداروں کی حدودپارلیمنٹ کی مرہون منت ہے،اداروں کی اپنی حدوداوراختیارہیں،پارلیمنٹ سےافضل کوئی ادارہ نہیں جبکہ پاکستان کی افواج دہشتگردی کیخلاف کامیابیاں حاصل کررہی ہے،پاکستان آرمی کےافسران فرنٹ سےلیڈکرتےہیں،کل پاک فوج کےجوانوں نےجام شہادت نوش کیا۔

راناثناء اللہ کا کہنا تھا کہ سابقہ اسٹبلشمنٹ نے پچھلے انتخابات کو ڈھاندلی کرکے انہیں جتوایا تھا لیکن جب یہ شخص حکومت میں آیا تو اس نے حزب اختلاف سے بدلہ لینا شروع کردیا اسی طرح جب یہ خود اپوزیشن میں تھا اس وقت بھی حکومت کے خلاف تھا. اب جب عمران خان آئینی طریقہ سے گھر بھیجا گیا تو پھر وہ اسی انداز میں حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے کیونکہ ان کا مقصد ملک میں صرف اور انارکی پھیلانا ہے. جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل کے 90 دن میں انتخابات کرانے کی آئین میں قدغن ہے، 30 اپریل کی تاریخ 90 روز سے باہر ہے، لہٰذا 30 اپریل کو بھی انتخابات ہوئے تو آئینی شرط پوری نہیں ہوتی۔

علاوہ ازیں وزیر داخلہ نے زور دیا کہ مسلح جتھوں اوردہشتگردوں کو کنٹرول کرنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تمام اختیارات دیے جائیں، گزشتہ گیارہ ماہ میں سیاسی اور انتظامی بحران پیدا کیا گیا اور افرا تفری پھیلائی گئی، یہ ایک فتنہ ہے اس کا ادارک نہ کیا تو ملک کو نقصان پہنچائے گا۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے سینیٹرز نے اجلاس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور وہ شریک نہیں ہوئے ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈر سمیت منحرف پی ٹی آئی اراکین کی اکثریت بھی مشترکہ اجلاس میں غیر حاضر ہے۔ تاہم حکومتی اتحادی جماعتوں کے اراکین نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف احتجاج کیا ہے جبکہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ احتجاج گزشتہ روز مریم نواز کے خلاف ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سامنے آنے پر یہ احتجاج کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ حکومتی اراکین نے ثاقب نثار مخالف پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں جن پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف نعرے درج ہیں۔

غوث بخش مہر کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے آج یہ اجلاس کیوں بلایا گیا ہے کیونکہ وزرا موجود ہیں لیکن ممبران کو بلا لیا گیا ہے جبکہ جس وزیر ان کا اشارہ وزیر داخلہ طرف تھا کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو تقریر ٹی وی پر کرتے ہیں وہ وہی بات اسمبلی میں کررہے تھے. انہوں نے مزید کہا کسی فرد کی غلطی کو ادارہ کی غلطی نہ سمجھا جائے بلکہ ہمیں اپنے تمام اداروں کی قدر کرنے چاہئے اور مل جل کر چلنا چاہئے.

غوث مہر کا جسٹس قاضی عیسیٰ بارے کہنا تھا کہ کہ ان کے والد نے اس ملک کے بنتے وقت سب سے پہلے قائد اعظم کے ساتھ پاکستان کا نعرہ لگایا تھا مگر ایسے شخص کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی لہذا ہمیں ایسی چیزوں سے بچنا چاہئے اور ملکی مفاد کو دیکھنا چاہئے ناکہ زاتی یا علاقائی نہیں.

اس خبر کو مزید اپڈیٹ کیا جارہا ہے.

Leave a reply