سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہوا بازی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنونیئر کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔
ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنسز کی منسوخی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ ذیلی کمیٹی کو وزارت ایوی ایشن، ڈی جی سول ایوی ایشن، پی آئی اے اور ایف آئی اے حکام نے معاملات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ کنونیئر کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پائلٹس کے مسائل کو تقریباً تین سال ہو گئے ہیں جن کو حل ہو جانا چاہیے تھا اسی وجہ سے قومی ایئر لائن بھی متاثر ہو رہی ہے یہ معاملہ قائمہ کمیٹی برائے ہوا بازی میں اٹھایا گیا جس نے یہ ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔اس کمیٹی کا مقصد کسی پر الزام لگانا نہیں بلکہ ان معاملات کا احسن طریقے سے حل کرنے کیلئے سفارشات مرتب کرنا ہے تا کہ نہ صرف ان پائلٹس کے مسائل حل کیے جا سکیں بلکہ قومی ایئر لائن میں بھی بہتری لائی جا سکے۔
ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ 262 پائلٹس کے لائسنسز کے حوالے سے مسائل تھے جس کی وجہ سے ہمیں بین الاقوامی سطح پر بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پائلٹس کے امتحانات کے حوالے سے مسائل تھے۔جس کی وجہ سے ان کوکام سے روک دیا گیا تھا۔ تحقیقات کے بعد180 پائلٹس کو کلیئر کر دیا گیا جبکہ باقی 82 پائلٹس کے مسائل رہ گئے تھے۔ کابینہ کی ہدایت پر 50 لائسنس منسوخ کیے گئے اور 32 کیسز کے حوالے یہ فیصلہ ہوا کہ جن افراد نے مراعات نہیں لیں ان کو چھ ماہ کیلئے معطل کیا جائے۔ سپریم کورٹ جعلی ڈگریوں کے حوالے سے پائلٹس کے معاملات کو دیکھ رہی تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ایسے تمام کیسز جن میں جعلسازی کی گئی ہے وزارت ان کے خلاف ایکشن لے محکمے نے انکوائری کر کے 68 پائلٹس کو چارج شیٹ کیا کچھ پائلٹس ایسے بھی تھے جو 82 پائلٹس کی لسٹ میں نہیں تھے۔
کنونیئر کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کمیٹی کامقصد اس مسئلے کا بہتر حل نکالنا ہے۔ پاکستان سمیت مختلف ممالک میں اس طرح کے معاملات ہوتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک نے اس حوالے سے جو لائحہ عمل اختیار کیا ہے اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ جن لوگوں کو فارغ کیا گیا ہے ان کی تفصیلات بمعہ وجوہات فراہم کی جائیں۔ کمیٹی نے اے ٹی پی ایل لائسنس کے مشکوک ہونے پر تمام لائسنس منسوخ کرنے پر بھی تشویش کا اظہارکیا۔ کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ اے ٹی پی ایل لائسنس جعلی نکلنے پر سی پی ایل لائسنس کیوں منسوخ کیئے گئے۔ سینیٹر صابر شاہ نے کہا کہ بی اے کی ڈگری جعلی ہونے پر ایف اے کی درست ڈگری کیسے کینسل ہو سکتی ہے۔کنونیئر کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اگر پائلٹس کے امتحانات کے حوالے سے مسائل تھے تو ان کے دوبارہ امتحانات لیے جا سکتے تھے۔
ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ جو پائلٹ آتا ہے انکی سیکورٹی کلئرنس ہوتی ہے۔ جعلی لائسنس پر نکالے گئے پائلٹس کی سیکورٹی کلئیرنس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 33 پائلٹس کے لائسنس مشکوک پائے گئے ہیں۔33 میں سے 27 پائلٹس پر مقدمات کا اندراج بھی کیا گیا ہے۔ 6 پائلٹس کے خلاف کوئی مقدمات درج نہیں کیے گئے۔ ایک رویو بورڈ 30 دن کے لئے بنایا تھا جس نے دو سال تک کام کیا اس میں یہ اپیل کر سکتے تھے۔ کنونیئر کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایف آئی اے حکام کے ساتھ معاملہ اٹھایا جائے تاکہ کوئی طریقہ کار نکالا سکے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ رویو بورڈ میں 19 کیسز آئے اور 18 کا فیصلہ بھی کر لیاگیا۔تین پائلٹس کو ریلیف بھی دیا گیا اور 7 کو جزوی ریلیف ملا ہے۔کنونیئر کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ معاملات کے حل کے لئے بہتر راستہ نکالا جائے گااور کل کے ہونے والے کمیٹی اجلاس میں اس کا مزید جائزہ لیا جائے گا۔
اگرکوئی پائلٹ جعلی ڈگری پر بھرتی ہوا ہے تو سی اے اے اس کی ذمے دارہے،پلوشہ خان
شہباز گل پالپا پر برس پڑے،کہا جب غلطی پکڑی جاتی ہے تو یونین آ جاتی ہے بچانے
پائلٹس کے لائسنس سے متعلق وفاق کے بیان کے مقاصد کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے، رضا ربانی
کراچی طیارہ حادثہ کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش، مبشر لقمان کی باتیں 100 فیصد سچ ثابت
ایئر انڈیا: کرو ممبرزکیلیے نئی گائیڈ لائن ’لپ اسٹک‘ ’ناخن پالش‘ خواتین کے لیے اہم ہدایات