قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ میں خدائے بزرگ و برتر کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ مجھے اس معزز ایوان کے سامنے Coalition Government کا دوسرا بجٹ برائے مالی سال 24-2023 پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ جناب اسپیکر !اس سے پہلے کہ میں مالی سال 24-2023 بجٹ کے اعداد و شمار اس معزز ایوان کے سامنے پیش کروں، میں آپ کی اجازت سے میاں محمد نواز شریف کی بطور وزیر اعظم حکومت 2013-17 اور تحریک انصاف کی نا اہل حکومت 22-2018 کا ایک تقابلی جائزہ آپ کے سامنےپیش کروں گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ مالی سال 17-2016 تک وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد پر پہنچ چکی تھی۔ افراط زر کی شرح 4 فیصد تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی میں سالانہ اوسطاً اضافہ صرف 2 فیصد تھا۔ پالیسی ریٹ 5.5 فیصد اور فیصد اور سٹاک ایکسچینج ساؤتھ ایشیاء میں نمبر 1 اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔ پاکستان خوشحالی اور معاشی ترقی کی جانب گامزن تھا اور دنیا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی معترف تھی۔ گلوبل ادارہ (Price Waterhouse Coopers (PWC کی projection کے مطابق سال 2030 تک پاکستان 2010-G کا رکن بننے یعنی دنیا کی 20 سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہونے جا رہا تھا۔ پاکستانی روپیہ مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کا بلند ترین تاریخی ریکارڈ قائم کر چکے تھے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے نئے منصوبے مکمل کیے گئے۔اس سے ملک میں 12 سے 16 گھنٹے کی روزانہ لوڈ شیڈنگ سے نجات حاصل ہوئی اور ملک کی معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ کو دور کیا گیا۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کے شعبے ، ہائی ویز کی تعمیر ، Mass Transit Systems ، روزگار کی فراہمی کے مواقع اور آسان قرضوں کی فراہمی جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔ یہ ایک خوشحالی، استحکام اور ترقی کا دور تھا۔ یاد رہے کہ مالی سال 18-2017 میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا ہدف پہلی دفعہ 1001 ارب روپے رکھا گیا تھا جو آج تک دوبارہ نہیں رکھا جاسکا۔ ضرب عضب اور ردالفساد آپریشنز اور افواج پاکستان کی قربانیوں کے مرہون منت ملک بھر میں دہشت گردی کے ناسور پر قابو پا کر اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ پاکستان میں امن وامان اور سیاسی استحکام تھا۔
بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر! ان حالات میں آنا فانا منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازشوں کے جال بچھا دیئے گئے۔ جس کے نتیجے میں اگست 2018 میں ایک Selected حکومت وجود میں آئی۔ اس Selected حکومت کی معاشی ناکامیوں پر اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو ملک 2017 میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں گر کر 47 ویں نمبر پر آ گیا۔ جناب اسپیکر ! آج پاکستان معاشی تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ میں انتہائی وثوق سے کہنا چاہوں گا کہ آج کی خراب معاشی صورت حال کی اصل ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت ہے۔ موجودہ حالات پچھلی حکومت کی معاشی بد انتظامی، بدعنوانی، عناد پسندی اور اقربا پروری کا شاخسانہ ہیں۔ لہذا یہ مناسب ہوگا کہ میں مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ اس معزز ایوان کے سامنے رکھوں۔ جناب اسپیکر ! 4 پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے۔ IMF پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے انتہائی اہم تھی۔ لیکن PTI حکومت نے اس نازک صورتحال میں حالات کو جان بوجھ کر خراب کیا۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی کے ذریعے کمی کردی۔ ایسے اقدامات اٹھائے جو کہ IMF کی شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ یہاں تک کہ اس ضمن میں آپ کو یاد ہو گا کہ سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے فون کر کے دو صوبائی وزرائے خزانہ پر شدید دباؤ ڈالا کہ وہ اپنا قومی فریضہ انجام نہ دیتے ہوئے IMF کے پروگرام کو سبوتاژکریں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ اقدامات نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے کے مترادف تھے۔ ان اقدامات نے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ حکومت پاکستان اور IMF کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ PTI نے تمام حالات کی ذمہ داری نئی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش محض چور مچائے شور کے مترادف تھی۔ ان کو یقین تھا کہ معاشی حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ کوئی پاکستان کو ڈیفالٹ سے نہیں بچا سکے گا۔ لہذا وہ حقائق کو مسخ کر کے ان کی ذمہ داری آنے والی حکومت پر ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل تھا۔ کسی محب وطن، سیاسی جماعت کو اس طرح کا طرز عمل زیب نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی جماعتوں کے بھر پور تعاون سے ایسے معاشی فیصلے کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے ان ملک دشمن لوگوں کے عزائم پورے نہیں ہو پار ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے نہ صرف پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ ان سازشی عناصر کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ان کے دور میں مالی خسارے کا خطرناک حد تک بڑھنا تھا۔ مالی سال 22-2021 کا خسارہ GDP کے 7.9 فیصد کے برابر جبکہ Primary Deficit جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی IMF پروگرام کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کو اُس وقت بھی علم تھا کہ پاکستان کو معاشی بحالی کے لیے انتہائی تکلیف دہ اقدامات کرنے پڑیں گے جس کی وجہ سے عوام کو مہنگائی اور غربت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روپے کی قدر میں کمی اور Interest Rate میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے “سیاست نہیں ریاست بچاؤ پالیسی پر عمل کیا۔ اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر معیشت کی بحالی کو ترجیح دی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جناب اسپیکر !-6 جون 2018 میں پاکستان کا Public Debt تقریباً 25 ٹریلین روپے تھا۔ PTI کی معاشی بدانتظامی اور بلند ترین بجٹ خساروں کی وجہ سے یہ قرض مالی سال 22-2021 تک 49 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس طرح پچھلے چار سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک یعنی 71 سال میں لیے گئے قرض کا 96 فیصد تھا۔ اس طرح Public Debt and Liabilities اس عرصہ میں 100 فیصد سے بڑھ کر 30 ٹریلین سے 60 ٹریلین روپے پر پہنچ گیا۔ جون 2018 میں External Debt and Liabilities 95 ارب ڈالر تھیں۔ جون 2022 تک یہ 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھیں۔ قرضوں کے مجموعی حجم میں اس قدر اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان کے Interest Expenditure میں بے پناہ اضافہ ہوا اور نتیجتاً پاکستان کی معیشت Debt Servicing کی وجہ سے بہت زیادہ Vulnerable ہوگئی۔ جناب اسپیکر ! پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو کہ مالی سال 2018 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ یعنی 5 سالوں میں گردشی قرضوں میں 645 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ یعنی 129 ارب سالانہ بڑھا۔ جبکہ پی ٹی آئی حکومت کے غیر سنجیدہ رویوں اور بدنظمی کی وجہ سے توانائی کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہوا۔ پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور حکومت میں گردشی قرضوں میں 1319 ارب روپے کا اضافہ کے ساتھ یہ 1148 ارب سے بڑھ کر 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ یعنی سالانہ 329 ارب روپے بڑھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر !-8 بجٹ خسارہ پاکستان کے معاشی مسائل میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ PTI حکومت ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری لانے میں یکسر ناکام رہی جبکہ اخراجات میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ PTI کے چار سالہ دور میں GDP کے تناسب سے اوسط بجٹ خسارہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور سے تقریباً دو گنا تھا۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا۔ Austerity Measures لیے گئے، Untargeted Subsidies کو بہت حد تک ختم کیا گیا اور Grants کی مد میں پچھلے سال کے مقابلے میں اخراجات میں کمی کی گئی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں GDP کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں GDP کا 7.0 فیصد ہو گیا ہے۔ اس طرح بجٹ خسارے میں ایک سال میں GDP کے تقریباً 1 فیصد کے برابر کمی لائی گئی۔ یاد رہے کہ خسارے میں یہ کمی Interest Expenditure میں ہوش ربا اضافے کے باوجود کی گئی جبکہ Primary Deficit کو صرف ایک سال کی مدت میں GDP کے 3.1 فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔ یعنی 2.6 فیصد کے برابر کمی ہوئی۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر ! یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کی معاشی صورتحال اور عام آدمی کے لیے مشکلات PTI حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں، بدعنوانیوں اور ناکامیوں کا نتیجہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان کی عوام اس بات سے پوری طرح آگاہ ہو چکے ہیں کہ موجودہ معاشی مشکلات اور مہنگائی کی مکمل ذمہ دار گزشتہ حکومت ہے۔ ماضی کی Selected حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے ملک کی معیشت کو شدید نقصان سے دوچار کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی دور اندیش قیادت میں حکومت نے مشکل ترین حالات میں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی۔ حکومت نے اپنے سیاسی نقصانات کی پرواہ کیے بغیر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ میری گزارش ہے کہ پاکستان کی عوام یہ پہچان لے کہ کس نے ملک کو بچانے کی کوشش کی اور کون پاکستان کی تباہی کا باعث بنتا رہا۔جناب اسپیکر ! اس ضمن میں 9 مئی کو رونما ہونے والے المناک، شرمناک، ملک دشمن واقعات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھے مسلح دہشت گرد جتھوں نے پاکستان کی سالمیت ، ساکھ اور قومی وقار کو مجروح کرنے کی گھناؤنی اور منظم سازش کی ۔ پاک افواج کے شہداء کی قربانیوں کو یکسر نظر انداز کیا اور اُن کی یادگاروں کی بے حرمتی کا جرم کیا ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ دفاعی تنصیبات کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسے ملک دشمن عناصر اپنی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے خود ہی بے نقاب ہو چکے ہیں۔ یہ گروہ کسی صورت بھی نرمی اور رحم دلی کے حقدار نہیں۔ ایسے تمام عناصر کو پاکستان کے قوانین کے مطابق سخت سے سخت سزائیں دی جانی چاہیں تاکہ آئندہ کسی کو بھی ایسے ناپاک عزائم کے ساتھ ملک دشمن سرگرمیوں میں حصہ لینے کی جرات نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر ! ملکی معیشت کو پچھلے ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے سال پاکستان کی عوام خاص طور پر صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے عوام کو سیلاب کی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب کی وجہ سے ملکی املاک اور معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ عوام کی بحالی اور آبادکاری کے لیے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھر پور طریقے سے حصہ لیا۔مزید برآں اقوام متحدہ کے ادارے FAO کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے مقابلے میں سال 2022 کے دوران مبین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان تیل، گندم، دالیں خوردنی تیل اور کھاد درآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے جس کی ہمیں زرمبادلہ میں ادا ئیگی کرنا پڑتی ہے اور یہ مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال جس میں یوکرین کی جنگ، عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافہ نے ملک کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ۔ پاکستان کی معیشت کا دوسرا بڑا مسئلہ (Current Account Deficit (CAD ہے۔ PTI حکومت کی وجہ سے مالی سال 22-2021 میں CAD 17.5 ارب ڈالر ہو گیا تھا۔ موجودہ حکومت کے بروقت اقدامات سے CAD میں تقریباً 77 فیصد کمی آئی۔ انشاء اللہ مالی سال 2022-23 کے اختتام پر یہ خسارہ کم ہو کے تقریباً 4 ارب ڈالر رہ جائے گا۔ اسی طرح تجارتی خسارہ جو کہ سال 22-2021 میں 48 ارب ڈالر تھا، مالی سال 23-2022 میں تقریباً 26 ارب ڈالر متوقع ہے۔ اس طرح ایک سال میں تجارتی خسارے میں تقریباً 22 ارب ڈالر کی کمی لائی گئی ہے۔ CAD اور تجارتی خسارے میں کمی لاتے ہوئے حکومت نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ صرف Luxury Goods اور دیگر غیر ضروری درآمدات کو روکا جائے تاکہ ملک کی معاشی پیداواری صلاحیت میں کم سے کم منفی اثرات مرتب ہوں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر موجودہ مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے الحمد للہ ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گراوٹ کو کم کیا گیا ہے۔ حکومت نے IMF پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کرلیا ہے۔ IMF پروگرام حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اسی لیے حکومت با قاعدگی سے IMF کے ساتھ مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہماری حتی المقدور کوشش ہے کہ جلد سے جلد SLA پر دستخط ہو جائیں اور پروگرام کا نواں جائزہ رواں ماہ میں مکمل ہو جائے۔جناب اسپیکر !14۔ حکومت کو عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں۔ تا کہ عوام کو مہنگائی کے اثرات سے بچایا جاسکے۔ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ پہلے BISP کے تحت دیئے جانے والے کیش ٹرانسفر کی شرح میں 25 فیصد اضافہ کیا اور بجٹ کو 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کر دیا۔ اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہو چکا ہے۔پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مفت آٹے کی تقسیم کی گئی۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی طرف سے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے ذریعے عوام کو سستی اشیاء کی فراہمی کے لیے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔پچھلے ایک ماہ میں حکومت نے دو مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی۔ نتیجتاً پیٹرول کی قیمت میں 20 روپے، ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے کمی کی گئی۔ امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ جولائی 2022 سے اب تک حکومت ماضی کے تقریباً 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضہ جات کی ادائیگی کر چکی ہے اور تمام تر بیرونی ادائیگیاں بروقت ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 34 کروڑ ڈالر ہیں۔ حکومت نے دوست ممالک اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز (Development partners) کے ساتھ بھی بہتر تعلقات قائم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ پچھلے چند سالوں میں تنزلی کا شکار ہو گئے تھے۔ اس سے معاشی بحالی میں مدد ملے گی۔ حکومت نے غیر ملکی زرمبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کو ختم کرنے کیلئے بھی انتظامی اقدامات اٹھائے ہیں جس کے مثبت نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔ جناب اسپیکر ! موجودہ حکومت نے زرعی شعبے پر سیلاب کے تباہ کن اثرات اور مجموعی مشکلات کو دور کرنے کے لیے 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا کسان پیکیج دیا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس پیکیج کے معیشت پر مثبت اثرات آئے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود زرعی شعبہ میں 1.5 فیصد کی گروتھ ہوئی ہے۔ گندم کی Bumper Crop کی وجہ سے 28 ملین ٹن سے زائد پیداوار ہوئی ہے اور کسان کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری دیہی معیشت میں 1500 سے 2000 ارب روپے اضافی منتقل ہوئے۔ اس سے ملک کی مجموعی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔ بجٹ 24-2023 کے ذریعے حکومت زرعی شعبے کے لیے مراعات کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی تفصیل آگے چل کر پیش کی جائے گی۔ امید ہے کہ یہ اقدامات ملک میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے اہم کردار ادا کریں گے۔ ا جناب اسپیکر ! رواں مالی سال کے دوران سیلاب سے متاثرہ علاقے ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا نہ کرسکے ۔حکومت نے ان علاقوں میں بحالی کا کام مکمل کر لیا ہے۔ تعمیر نو کے لیے حکومت نے 578 ارب روپے کے منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا ہے اور انشاء اللہ اگلے مالی سال سے یہ علاقے معیشت میں دوباہر اپنا فعال کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں اندرونی اور بیرونی مشکلات کی وجہ سے LSM سیکٹر میں منفی گروتھ کا رحجان رہا، اس کی بڑی وجہ زر مبادلہ کی کمی تھی، جس کی وجہ سے خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل کھولنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ حکومت اگلے مالی سال میں اس ان رحجان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح یہ عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں’ انوینٹری بلڈ اپ’ میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے بھی ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مندرجہ بالا اقدامات کے نتیجے میں ملکی معیشت میں ایک Vulnerableصورتحال سے نکل کر استحکام کی طرف آ رہی ہے، بجٹ مالی سال 2023-2024ء کے ذریعے ملک استحکام سے ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ انشاء اللہ انہوں نے کہا کہ جناب سپیکر اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 2023-2024ء کو عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کے مد نظر ہم نے اگلے مالی سال کے لیے ترقی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے، جو کہ ایک Modest targetہے، جلد ہی ملک جنرل الیکشنز کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مالی سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھر پور مشاورت کے بعد اُن Elements of real economy کومنتخب کیا ہے۔ جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے۔بجٹ تجاویز میں ہمارے ترجیحی Drivers of Growth مندرجہ ذیل ہیں، زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگلے مالی سال میں اس شعبے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی تجاویز ہیں:زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ بجلی / ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں اگلے مالی سال میں 50,000 زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ معیاری بیج ہی اچھی فصل کی بنیاد ہے ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح Sapplings کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ موسمی تبدیلی کی وجہ سے وجہ سے Harvesting کی مدت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کسان نے تیسری فصل بھی اُٹھانی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ پکی ہوئی فصل کو جلد سے جلد سنبھالا جائے۔ اس کے لیے Combine Harvesters کی ضرورت ہے۔
بجٹ تقریر کے دوران اسحاق ڈار نے کہا کہ Combine Harvester کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے یہ تجویز ہے کہ ان پر تمام ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ دیا جائے۔ چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے Rice Planters, Seeder اور Dryers کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ کی تجویز ہے۔ Agro Industry دیہی معیشت میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ بجٹ میں Agro Industry کو Concessional قرض کی فراہمی کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ زرعی اجناس کی اصل Value Addition اُن کی Processing میں ہے اس سے اجناس بالخصوص پھل اور سبزیوں کے ضائع ہونے کا احتمال بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ اسکے علاوہ Food Processing Units روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں لگائی جانے والے Agro-based Industrial Units جن کا سالانہ Turnover 80 کروڑ روپے تک ہوگا ان کو تمام ٹیکسز سے 5 سال کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔ PM’s Youth, Business and Agriculture Loan Scheme کے تحت چھوٹے اور درمیانی درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا اور اس مقصد کے لیے اگلے مالی سال میںمارک اپ سبسڈی کے لیے 10 ارب روپےفراہم کیے جائیں گے۔
انضمام شدہ اضلاح کیلئے بجٹ میں خصوصی ترقیاتی منصوبے شامل کرنے کا فیصلہ
تحریک انصاف کی صوبائی رکن فرح کی آڈیو سامنے
بجٹ 2023-24 میں وزیر اعظم پیکج کے تحت 80 ارب کے منصوبے
وفاقی بجٹ میں نئے انتخابات کیلئے بھی رقم
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حوالے سے بجٹ تجاویز
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جارہا ہے، سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار کی جارہی ہے، وفاقی حدود میں کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے کی جارہی ہے، صوبے اس حوالے سے اپنا فیصلہ کریں گے۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیوٹیوٹ (ای او بی آئی) کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مقروض افراد کی بیواؤں کے 10لاکھ روپے کے قرضے حکومت ادا کرے گی، قومی بچت کے شہداء اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بجٹ کو 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400ارب کردیا ہے۔