سسکیوں بھرا لطف اندوز اللہ تک کا سفر۔۔۔۔
اصل کی طرف نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے
"کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے”
مزے کی بات یہ کہ کوئی اسے رو کر پہچانتا ہے ،کوئی ہنس کر پہچانتا ہے اور کوئی پہلے تو اس کا ہوتا ہے مگر پھر بھٹک جاتا ہے مگر پھر دوبارہ لوٹ آتا ہے ۔۔۔۔۔لیکن چل پھر کر دوبارہ آ ہی جا تا ہے۔۔۔۔۔
سوال پیدا ہوتا ہے کس کی طرف آتا ہے ؟؟؟
مخلوق کے رب کی طرف وہ جسے اللہ کہتے ہیں ،وہ جسے دو دن کا بچہ بھی جانتا ہے وہ جسے سو سال کا بوڑھا بھی جا نتا ہے۔
دنیا میں انسانوں کے دلوں کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ٹھوکریں کھایا ہوا دل صحیح سالم دل سے دیکھنے میں اگرچہ بہت اچھا ہے ،مگر بہت سستا ہے کیونکہ ایسا دل جسے ضربیں بہت لگی ہوں اللہ کے بڑے قریب ہوتا ہے اور جس دل میں اللہ ہے وہی تو اصل میں دل ہے
میرے پیارے جامعہ "سودۃ بنت ذمعہ رضی اللہ عنہا” کے بانی و مہتمم ہمارے استاد حضرت اقدس مفتی محمود الحسن شاہ مسعودی دامت برکاتہم العالیہ فرمایا کرتے ہیں
"جس دل میں دل کا دل یعنی اللہ نہیں وہ دل دل نہیں فقط سل ہے”
اس لیے یوں کہنا کہ ((ٹھوکریں اور ناکامیاں اچھی بلکہ بہت اچھی ہوا کرتی ہیں تو غلط نہیں سو فیصد صحیح ہے))
کیونکہ یہی رب سے باتیں کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں ،انہیں سے بندہ رب کو پہچانتا ہے اس لیے ٹوٹا دل بڑا قیمتی ہے ہاں اگر کوئی بغیر ٹھوکریں کھائیں بھی اللہ کے قریب ہے تو یہ رب کا بندے پر سراپا انعام ہے پھر بندے کو اس نعمت کے زائل ہو جانے سے ڈرنا چائیے اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چائیے اور دعا بھی کرنی چائیے کہیں اس ٹھیک راستے سے پھسل نا جائے
میرے ابو جان محترم جناب پروفیسر قاضی سخاؤالدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ایک موقع پر مجھے ایک عربی کہاوت یاد کروائی تھی
"ما کل ما یتمنی المرء یدرکہ
لان الریاح تجری بما لا تشتھی السفن”
ہر وہ چیز جس کی بندہ تمنا کرے اسکو پا نہیں سکتا اس لیے کہ ہوائیں کشتیوں کی خواہش کے خلاف چلتی ہیں
میں نے مانا ہوائیں کشتیوں
کی خواہش کے خلاف چلتی ہیں لیکن ان ہواؤں کو جو کشتیوں کی خواہش کے خلاف چلتی ہیں انہیں دل کی داستان سنائے کون اور کیسے ،درد کی شدت بتائے کون اور کیسے خیر اسی کشمکش میں کوئی رب کو پہچان گیا گویا وہ منزل کو پا گیا
سوچنےکی بات ہے؟ یہ تمنا کیا چیز ہے جس کے لیے بندہ کیا کچھ نہیں کرتا ؟یہی وہ چیز ہے جس کے لیے بندہ اللہ سے مانگتا ہے،کوشش کرتا ہے،اور کچھ نیک لوگوں سے بھی یہ کہتا ہے
"میرے لیے دعا کرنا”
دیکھیں بات یہ ہے کہ دعائیں بندے کو ضرورت ہوتی ہیں ۔۔۔۔
ایسا ہے ناں؟
ضرورت ہوتی ہیں ناں؟
مجھے تو ہوتی ہے اور دعائیں کرانے کے لیے سب سے بہترین اور قبولیت کی گارنٹی والا زریعہ والدین ہیں مگر والدین ایسی چیز ہیں جنہیں ہم کچھ پریشانی والی بات بتائیں تو وہ دکھی ہوتے ہیں ،پریشان ہوتے ہیں،اگر صرف دعا ہی کا کہہ دیں پھر بھی وہ سوچتے ہیں بچے کو کیا ہوا پھر دعا تو کروانی ہے ۔۔۔۔۔
اب والدین کے بعد جو دوسری سہولت اگر موجود ہے تو وہ بہن بھائی ہیں جنہیں درد تو ضرور ہو گا مگر والدین والی فکر اور درد نہیں اور بعض تو وہ ہیں جن کے بہن بھائی بھی نہیں ۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔رکیں ۔۔۔۔۔ہر نعمت کا نعم البدل ہوتا ہے اگر بہن بھائی نہیں تو رکیں۔۔۔۔انتظار کریں۔۔۔۔آپ کے ساتھ احساس و محبت کرنے والے اور بہت ہیں۔۔۔
اس لیے اگر اللہ نے آپ کو ایسے مخلص رشتے جن کو آپ دعاؤں کا کہتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں ان کی قدر کریں ، اور وہ رشتے بعد از والدین آپ کے شیخ ہیں جو آپ کو ان سیڑھیوں کو عبور کرنا سکھاتے ہیں جن تک ہر ایک کی رسائی نہیں بلکہ ان کی عقل و شعور کے مطابق وہ سیڑ ھیاں ِسِرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔ پھر استاد جیسا عظیم رشتہ ہے جس نے آپ کو انسان بنایا جس نے آپ کو یہ سکھایاکہ دعائیں کروائی جاتی ہیں دعائیں اپنے بڑوں کا دل خوش کر کے لی جاتی ہیں
اور اس کے بعد شاید آپ کے ساتھی ایسے ہوں جو آپ کے لیے اچھا سوچتے ہیں جو آپ کے لیے اچھا مانگتے ہیں ۔
ویسے بات یہ ہے ہم جیسے جیسے اللہ کی مانتے جاتے ہیں اتنا ہی ہمیں سکون آتا جاتا ہے اتنا ہی ہمارا دل مطمئن ہوتا جاتا ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی زندگی میں کوئی پریشانی،کوئی مشکل باقی نہیں رہتی بلکہ وہ مشکلیں اور پریشانیاں ساتھ ہوتے ہیں مگر پھر بھی آپ مطمئن ہوتے ہیں وہ اللہ کی نظر میں ہونے کا احساس آپکے دل کو سکون میں رکھتا ہے ,ماحول کی آزمائشیں ،مشکلیں بھی آپکے دل کا سکون نہیں چھین سکتی اگر ایک وقت میں آپ ہمت ہارتے ہیں مگر دوسرے وقت میں آپ کو ایسے لگتا ہے کہ دنیا میں آپ جیسا بہادر انسان نہیں۔ یہ احساس اور خیال نصیب ہو جانا بڑی نعمت ہے اس نعمت کو تلاش کریں اس نعمت کے ملنے کی دعا کریں اور کوشش کریں اللہ عزوجل آپ سے راضی رہیں،اللہ جس بھی حال میں رکھے آپ مطمئن ہوں اور یہ بھی یقین ہو کہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے
اللہ کی ذات بڑی مہربان ذات ہے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ عزوجل آپ کی ہر بات مانیں تو آپ کو بھی اللہ کی ہر بات ماننی پڑے گی ۔اگر ماننے کے باوجود بھی کھبی آپ کسی بات سے دکھی ہوتے ہیں ،آپ کی کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو تسلی رکھیں آپ کا شمار اللہ کے ان بندوں میں ہے جن کامانگنا ربِ کعبہ کو پسند ہے ،آپ کا شمار ان برگزیدہ بندوں میں ہے کہ جن کے بارے میں وہ چاہتا ہے یہ ہاتھ مجھ سے بار بار مانگیں عنقریب آپ کو آپ کی دعاؤں کی قبولیت (اجراًعظیما ) کی صورت میں آخرت میں مل جائے گی( انشاءاللہ )وہ اس لیے کہ اللہ دعاؤن کو رد تو نہیں فرماتے وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والی ہے
اور پھر اسی مانگنے کے بعد جب آپ کسی چھوٹی یا بڑی بات سے چکنا چور ہوتے ہیں کیونکہ آپ نے معاملے کا حق بھی ادا کیا ہوتا ہے ،آپ نے دعائیں بھی کی ہوتی ہیں ،آپ نے سب کا دل بھی خوش کیا ہوتا ہے تو آپ کے اس ٹوٹے دل میں آپ سے بہت پیار کرنے والی ذات اچھلتی گیند کی طرح ذور ذور سے اپنی طرف آنے کے لیے بلا رہی ہوتی ہے اور اسی بلانے پر انسان اللہ کے پاس چلا بھی آتا ہے گویا دل اس کی طرف جانے کے لیے اچھلتا گیند بنا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے
"احساس کر اللہ تمہیں پیار سے دیکھ رہا ہے”
اسی ساری داستان اور سفر کے متعلق ایک دفعہ ابو جان نے حضرت علی رضی اللہ کا ایک قول بیان کیا :
"عرفت ربی بفسخ العزائم”
"میں نے اللہ کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ”
خیر حقیقت میں کامیابی آخرت کی کامیابی ہے بس۔۔۔۔۔اللہ رب العزت دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائےیقین جانئیے اگر اللہ راضی ہو تو پرواہ نہیں ہے۔بس وہ آخرت کے امتحان میں کامیاب کر دے ہم تو سراپا محتاج ہے وہ عطا کرنے کا خزانہ ، وہ جسے چاہے عزت دے، وہ گدا کو بادشاہ بنا دینے پر قادر ،بادشاہ کو گدا بنانے پر قادر اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔
خیر ۔۔۔۔۔
بات ہو رہی تھی اللہ تک کے سفر کی تو اللہ سے دعا ہے
"اللھم کن لی وجعلنی لک ”
اے اللہ آپ میرے ہو جائیں مجھے اپنا بنا لیں آمین
والسلام
بنت قاضی سخاؤالدین








