کاروباری اداروں کا سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے ارادے سےعطیات دینا بدعنوانی ہے،صدرجی سی این پی
میری ٹائم انڈسٹری پاکستان میں کرپشن، نامناسب طریقوں کی نشاندہی اورحل کےموضوع پر گول میز اجلاس سے خطاب
گلوبل کومپیکٹ نیٹ ورک پاکستان کے صدر مجید عزیز نے کہا ہے کہ کاروبار میں بدعنوانی ایک عالمی مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں کرپشن کے معاشی اخراجات 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہیں۔پاکستانی میں بدعنوانی اور نامناسب طریقے اب ادارہ جاتی ہیں جو معاشی ترقی میں رکاوٹ ہیں اور وسیع پیمانے پر بدعنوانی کا نتیجہ ناکارہ معیشت کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ بات انہوں نے میری ٹائم اینٹی کرپشن نیٹ ورک (ایم اے سی این) ڈنمارک کے تعاون جی سی این پی کے زیر اہتمام ”میری ٹائم انڈسٹری پاکستان میں کرپشن، نامناسب طریقوں کی نشاندہی اور اس کا حل“ کے موضوع پر گول میز اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے 11 چیمبرز اور ایسوسی ایشنز، میری ٹائم انڈسٹری کے صارفین اور اسٹیک ہولڈرز سے خطاب کر رہے تھے۔اجلاس سے (ایم اے سی این) ڈنمارک کے میتھیاس باک،سینئر ایڈوائزر برائے جی سی این پی تنویر احمد اورکنسلٹنٹ محمد اکرم نے بھی خطاب کیا۔اجلاس میں پیفا، کیو آئی سی ٹی، کسٹم ایجنٹس، شپنگ لائنز، اسٹیویڈورس، کارگو ہینڈلنگ، پریگمیا، پی ایچ ایم اے، کیو ایف ایس ٹرمینل، کے سی سی آئی، آئی سی سی آئی، پیپر مرچنٹس کے نمائندوں اور عہدیداروں نے شرکت کی۔
مجید عزیز کا کہنا تھا کہ جن کے پاس صوابدیدی یا فیصلہ سازی کے اختیارات ہوتے ہیں وہ یا تو بدعنوانی کے ارتکاب پر مجبور ہوتے ہیں یا اپنے عہدوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔انہوں نے مشورہ دیا کہ بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس اور ایک متحد قوت کے طور پر کام کرنا چاہیے۔بدعنوانی اس وقت بھی ہوتی ہے جب کاروباری ادارے سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے ارادے سے سیاسی عطیات دیتے ہیں تاکہ پالیسیوں میں تبدیلی یا قوانین میں ترمیم ہو۔
میری ٹائم اینٹی کرپشن نیٹ ورک ڈنمارک کے میتھیاس باک نے بذریعہ زوم اجلاس سے خطاب میں مشورہ دیا کہ اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر معیاری آپریٹنگ طریقہ کار تیار کریں اور غلط طریقوں کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ بننے کے لیے ایک مستحکم پلیٹ فارم وضع کریں۔معاشی ترقی اور لاگت میں کمی کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے نیز کارکردگی کی شفافیت اور کوششوں پر اتفاق رائے کو فروغ دینا دیانت کو یقینی بنائے گا اور انہیں غیر ضروری دباؤ کے چیلنجز سے آزاد کرے گا۔
ایم اے سی این کے سینئر ایڈوائزر برائے جی سی این پی تنویر احمد نے بتایا کہ جی سی این پی نے ایف آئی اے کے ساتھ اجلاس کے بعد ایک تفصیلی خط متعلقہ ڈائریکٹر کو دیا گیا تھا۔جی سی این پی نے تجویز پیش کی کہ پرانے ایس او پیز موجودہ تقاضوں کے مطابق فرسودہ ہو چکے ہیں لہٰذا ایف آئی اے کو چاہیے کہ وہ آئی ایل او میری ٹائم کنونشن کا مطالعہ کرے اور اس کے مطابق ایس او پیز میں ترمیم کرے۔ایم اے سی این کے کنسلٹنٹ محمد اکرم کا کہنا تھا کہ جی سی این پی اور ایم اے سی این باقاعدگی سے سیمینارز اور انفرادی مشاورتی اجلاس منعقد کر رہے ہیں اور فائدہ مند حل تلاش کرنے میں پوری صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ 22 ستمبر کوقومی کانفرنس منعقد ہوگی جس میں ایم اے سی این ڈنمارک کے میتھیاس باک دیگر ممالک میں کیے گئے تازہ ترین مثبت اقدامات اور اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔
اجلاس میں اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک مفصل معلوماتی اور سیرحاصل بحث کے دوران باالخصوص ڈی ٹینشن چارجز اور ڈیمریج چارجز کے حوالے سے متعدد تجاویز پیش کی گئیں۔اجلاس میں شپ ایجنٹس ایڈوائزری بورڈ کے قیام پر اتفاق رائے ہوا جو تمام تنازعات اور بندرگاہ کی سرگرمیوں کا مرکزی نقطہ ہو گا۔شپنگ کمپنیوں پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ باڈی بنانے پر بھی زور دی گیا۔شرکاء نے یہ بھی شکایت کی کہ کسٹمز اور پورٹ حکام یکطرفہ طور پر قواعد و ضوابط میں تبدیلی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بدعنوانی اور غلط طریقے جنم لیتے ہیں۔کراس اسٹفنگ کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ اگر ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے کراس اسٹفنگ کی اجازت ہے تو اسے عام کارگو کے لیے کیوں نہیں کیا جانا چاہیے؟ مزید برآن کسٹمز میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے حکومت کی جانب سے شفاف پالیسیوں کی ضرورت ہے۔شرکاء نے لیبر یونینز، ورکرز کا استعمال اور بندرگاہوں میں غیر مجاز افراد کے داخلے کے خلاف متعدد شکایات کیں
پائلٹس کے لائسنس سے متعلق وفاق کے بیان کے مقاصد کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے، رضا ربانی
کراچی طیارہ حادثہ کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش، مبشر لقمان کی باتیں 100 فیصد سچ ثابت
ایئر انڈیا: کرو ممبرزکیلیے نئی گائیڈ لائن ’لپ اسٹک‘ ’ناخن پالش‘ خواتین کے لیے اہم ہدایات
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کو مجموعی طور پر 383 بلین کا خسارہ ہے
سپریم کورٹ نے پی آئی اے کو نئی 205 پروفیشنل بھرتیوں کی اجازت دیدی
اگرکوئی پائلٹ جعلی ڈگری پر بھرتی ہوا ہے تو سی اے اے اس کی ذمے دارہے،پلوشہ خان
پائلٹس کی ابتدائی 8 سے 10 ماہ کی تربیت پر 15000 سے 20000 ڈالر کا خرچ








