انڈین پنجاب سے تعلق رکھنے والے سندیپ سنگھ نے سکالر شپ کے ساتھ اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور کچھ عرصے تک ایک سرکاری یونیورسٹی میں گیسٹ لیکچرر کے طور پر پڑھاتے رہے، لیکن اب وہ سڑک کے کنارے سبزیاں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
باغی ٹی وی: سندیپ سنگھ نے اپنے نئے کام کا نام ’پی ایچ ڈی ویجیٹیبل‘ رکھا ہے ان کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں بہت سے لوگ ان کےسبزی فروخت کرنےکو پنجاب میں بے روزگاری کے مسئلے سے جوڑ رہے ہیں، سندیپ شادی شدہ ہیں اور ان کے ہاں ایک بیٹا بھی ہے سندیپ سنگھ کی عمر 39 سال ہے وہ امرتسر کی فتح سنگھ کالونی میں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایچ ڈی ہولڈر کا کہنا تھا کہ پی ایچ ڈی کے ساتھ چار مضامین میں ماسٹرز (ایم اے) بھی کر رکھا ہے اعلیٰ تعلیم کے بعد لوگ مجھے ڈاکٹر سندیپ سنگھ کے نام سے پکارتے تھے لیکن اب لوگ مجھے پی ایچ ڈی سبزی والا کہتے ہیں-
پاکستان کی قیادت کیلئے عمران خان ہرگز موزوں نہیں،امریکی اخبار
بی بی سی
سندیپ سنگھ نے سکالر شپ کے ساتھ اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور کچھ عرصے تک ایک سرکاری یونیورسٹی میں گیسٹ لیکچرر کے طور پر پڑھاتے رہے، لیکن اب وہ سڑک کے کنارے سبزیاں فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
سندیپ نے انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تقریباً 11 سال پڑھایا پہلے پانچ سال میں نے جونیئر ریسرچ فیلو کے طور پر پڑھایا اور سنہ 2016 سے اگلے سات سال میں نے بطور گیسٹ فیکلٹی پڑھایا انھیں اپنی کمزور مالی حیثیت کی وجہ سے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے سبزیاں اگانے کا کام کرنا پڑتا ہےان کی تنخواہ بہت کم تھی اور اب ان کے پاس باقاعدہ نوکری بھی نہیں رہی ہے کوئی بھی کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا ’لیکن کام لیاقت اور اہلیت پر ہونا چاہیے، میں اب وہ کام کر رہا ہوں جو میں کئی سال پہلے کر سکتا تھا۔
انسانی ہونٹوں کیطرح دکھنے والا خوبصورت پوداخطرے سے دوچار
سندیپ کا کہنا ہے کہ بطور گیسٹ لکچرار انھیں ماہانہ زیادہ سے زیادہ 35 ہزار روپے ملتے تھے اور وہ بھی سال کے چھ یا سات مہینے ہی ایسا ہو پاتا تھا اب وہ سبزی کی فروخت سے پہلے کی نسبت زیادہ کماتے ہیں وہ صبح سویرے سے سبزی بیچنا شروع کرتے ہیں اور دوپہر تک فروخت کرتے ہیں ان کا خواب ایک کوچنگ اکیڈمی کھولنا ہے-
بی بی سی
سندیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ انھیں ہر وقت ذہنی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ سندیپ سنگھ نے 2009 میں امرتسر کی گرو نانک دیو یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز مکمل کیا تھا میرا بچہ مجھ سےبار بار پوچھتا ہےکہ پاپا آپ یونیورسٹی جاتےتھےاب کیوں نہیں جاتےکب جائیں گے؟
میرے پاس صرف ایک ہی جواب ہے کہ میں چار دن بعد جاؤں گا، وہ چار دن گذشتہ چھ ماہ میں پورے نہیں ہوئے، پتہ نہیں کب ختم ہوں گےیہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے،میرے پاس کوئی سفارش، پیسہ یا لنک نہیں ہے، شاید یہی میری غلطی ہےجب اردگرد کے لوگ یا میرے بچے مجھے پڑھانے کے بجائے سبزی کی ٹوکری اٹھائے دیکھتے ہیں تو اس سے مجھے دباؤ محسوس ہوتا ہے-