سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت ہوئی
چیف جسٹس قاضی فائز کی سربراہی میں تین رکنی بنیچ نے سماعت کی،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل تھے،الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے؟وکیل حامد خان نے عدالت میں کہا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا،مخدوم علی خان نے بلے کا نشان واپس کرنے کا فیصلہ پڑھ کر سنا دیا،
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کمرہ عدالت، علی ظفر لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک پر موجود تھے، وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، آپ مقدمہ کیلئے کب تیار ہونگے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ پیر کو سماعت رکھ لیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پیر تک سماعت ملتوی کرنے کیلئے ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنا پڑے گا،ہم تو ہفتے اور اتوار کو بھی سماعت کیلئے تیار ہیں، وکیل حامد خان نے کہا کہ اس صورت میں تیاری کیلئے کل تک کا وقت دیں،
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن قانونی طور تشکیل نہیں دیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا یہ حقیقت درست ہے، وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ بات درست نہیں الیکشن کمیشن اپیل قابل سماعت نہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر اپیل کے قابل سماعت ہونے کا اعتراض ہے تو حامد خان پہلے آپ دلائل دیں۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے پی ٹی آئی کے الیکشن کمیشن کی تشکیل قانون طور پر درست نہیں تھی،وکیل حامد خان نے کہا کہ اس معاملے پر دلائل دینے کو تیار ہوں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بتائیں سیاسی جماعت انتخابات کیلئے فیڈرل الیکشن کمشنر کیسے تعینات کرتی ہے،الیکشن کمیشن کا کہنا ہے پی ٹی آئی کا فیڈرل الیکشن کمشنر بھی درست تشکیل نہیں ہوا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جمال اکبر انصاری فیڈرل الیکشن کمشنر تھے، تحریک انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017 میں ہوئے تھے،پارٹی آئین کے مطابق تحریک انصاف 2022 میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی،الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حامد خان سے سوال کیا کہ کیا یہ بات درست ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ کیس کی تیاری کیلئے وقت اسی لئے مانگا تھا،الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت اور حق دعوی نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا،مناسب ہوگا پہلے حق دعویٰ اور قابل سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، وکیل حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ کوئی ادارہ اپنے فیصلے کے دفاع میں اپیل نہیں کر سکتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسٹم کلیکٹر بھی اپنے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں کرتے ہیں،وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کیخلاف اپیلوں سے روکا تھا،کیا کوئی جج بھی اپنے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہو سکتا ہے؟قانون اور آئین کے تحت قائم ادارے ایک جیسے نہیں ہوسکتے،آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا،کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا،وکیل حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہوگی،
کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرینڈر کر دے؟ چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی انتخابی نشان کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اسکے فیصلے بے معنی ہوجائیں گے، وکیل حامد خان نے کہا کہ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کی خلاف اپیل کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرینڈر کر دے؟ حامد خان صاحب ایک آئینی ادارے کا قانونی ادارے سے تقابل نہ کریں،آپ نے جو دوفیصلوں کا حوالہ دیا وہ قانونی اداروں کے حوالے سے ہے،وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہرآئینی ادارہ قانون کے تحت چلتا ہے اورالیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کے قانون کے مطابق چلتا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چلیں ہم نے آپ کے اعتراض کو نوٹ کرلیا ہے، آپ کے پاس اعتراضات کرنے کا بالکل حق موجود ہے،وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمیں کل ہی نوٹس ملا ہے ہم تیار نہیں ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ابھی تک یہ بات سمجھ آئی ہےکہ پارٹی نے اپنے ہی آئین کے تحت الیکشن نہیں کرایا، حامد خان صاحب،آپ دستاویزات داخل کرنا چاہتے ضرور کریں، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت الیکشن کمیشن کا ریکارڈ منگوالے توہم وہ بھی منگوالیتے ہیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن کیخلاف چودہ شکایات ملی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیی نے استفسار کیا کہ یہ درخواستیں کس نے دائر کیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ درخواستیں دینے والے تحریک انصاف کے لوگ تھے،
کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کرینگے،چیف جسٹس
اکبر ایس بابر کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، اور کہا کہ ہماری درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ، اکبر ایس بابر فاونڈر ممبر پی ٹی آئی ہے، اکبر ایس بابر پارٹی میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر وہ پی ٹی آئی کے ممبر کیوں نہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل حامد خان سے سوال کیا کہ کیا آپ نے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا؟وکیل حامد خان نے کہا کہ شکایت کنندگان پی ٹی آئی کے ارکان نہیں تھے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فاونڈر ممبر تو میرے حساب سے کبھی ختم نہیں ہوتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی؟ حامد خان نے کہا کہ یہ تو ایک اور بحث ہے کہ کون فاونڈنگ ممبر ہے کون نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان صاحب کیا آپ تحریک انصاف کے فاونڈنگ ممبر نہیں ؟وکیل حامد خان نے کہا کہ جی میں پارٹی کا فاونڈنگ ممبر ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی آئینی ادارے کا کام خود نہیں کرینگے،الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں،پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی خود ہائی کورٹ گئی تھی انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا،الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں،
بلے کا انتخابی نشان، سپریم کورٹ میں سماعت میں وقفہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ابھی سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہے،اجلاس کے بعد ڈیڑھ بجے تک کیس کی سماعت دوبارہ شروع کریں گے،دو صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس کیلئے انتظار کررہے ہیں،ہم جمہوریت پر چلتے ہیں، مجھے اندازہ نہیں ہے ہم کب دستیاب ہونگے،ڈیڑھ بجے تک آپ لوگ آزاد ہیں، عدالت نے الیکشن کمیشن سے کیس کی اوریجنل فائل منگوا لی.
پی ٹی آئی کا الیکشن کون کون لڑ سکتا ہے؟ چیف جسٹس
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہوئی،الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا دوبارہ آغاز کر دیا ، وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات کیس میں 64 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹراپارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے، الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے، پی ٹی آئی کے انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے آئین پر اعتراض نہیں ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے تحت نہیں ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف نے آئین تو بہت اچھا بنایا ہے،وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کیس یہی ہے کہ انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہوئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کون کون لڑ سکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پارٹی انتخابات صرف ممبران ہی لڑ سکتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کون ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پہلے اسد عمر تھے اب عمر ایوب سیکرٹری جنرل ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا اسد عمر نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسد عمر تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں، اسد عمر سیکرٹری جنرل کیسے بنے الیکشن کمیشن ریکارڈ پر کچھ نہیں ہے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ کسی ہوٹل میں ہوئے یا کسی دفتر یا گھر میں؟ پی ٹی آئی وکلا نے کہا کہ چمکنی کے گرائونڈ میں ہوئے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا کوئی نوٹیفیکیشن ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ پارٹی الیکشن کس جگہ ہونگے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چھوٹے سے گم نام گائوں میں انتخابات کیوں کرائے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریکارڈ پر تو کچھ نہیں ہے کہ پشاور میں جس جگہ پارٹی الیکشن ہوا،پارٹی ارکان کو کیسے معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے؟پی ٹی آئی وکلاء جواب نہیں دینا چاہتے تو آگے چلتے ہیں،پارٹی ممبران کو تو معلوم ہونا چائیے کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے، چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ واٹس ایپ پر لوگوں کو بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی،ویڈیو موجود ہے عدالت میں چلا لیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ویڈیوز باہر جا کر چلا لیں ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کتنے ممبر ہیں آپ کی جماعت کے؟نیازاللہ نیازی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ممبر ہیں، ووٹنگ ہوئی تھی،وڈیوز چلاکر دیکھ لیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیازاللہ نیازی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ آج وکیل نہیں پارٹی ہیں،آپ کوکوئی تمیزہے کہ سینئروکلا کی موجودگی میں اجازت لے کربات کرتے ہیں،آپ کی پارٹی کے وکیل موجود ہیں آپ بیٹھ جائیں،آپ کے سینئر وکلا موجود ہیں ،ہم ہر کسی کو نہیں سن سکتے ،آپ کا وکیل کون ہے آپ پارٹی ہیں،یا تو کہہ دیں کے آپ خود وکیل ہیں ،نیازاللہ نیازی نے کہا کہ میرے حامد خان وکیل ہیں،
ریکارڈ کے مطابق کیس زیرالتواء ہونے کے دوران ہی دوبارہ پارٹی انتخابات ہوگئے تھے، جسٹس محمد علی مظہر
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے 2 دسمبر سے پہلے کب الیکشن ہوئے؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آخری الیکشن جون 2017 میں ہوئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ ان کاکہنا ہےکہ آخری الیکشن دسمبرمیں ہوئے دستاویزات سے بتائیں،کیا الیکشن کمیشن کا یہ حکم چیلنج ہوا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں فیصلہ چیلنج ہوا تھا جو لارجر بنچ کو ریفر کیا گیا لیکن فیصلہ نہ ہوسکا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کیس زیرالتواء ہونے کے دوران ہی دوبارہ پارٹی انتخابات ہوگئے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا دونوں پارٹی انتخابات میں وہی عہدیداران منتخب ہوئے تھے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ اس حوالے سے ہدایات اور ریکارڈ لیکر ہی آگاہ کر سکوں گا،الیکشن کمیشن نے 20 دن میں پارٹی الیکشن کرانے کا کہا تھا اس لئے دوبارہ کرائے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں زیرالتواء درخواست کیا واپس لے لی ہے؟وکیل حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کو درخواست غیر موثر ہونے سے آگاہ کر دیا ہے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر بلے کا انتخابی نشان بنتا ہے تو پی ٹی آئی کو ملنا چاہیے،ہم نے پی ٹی آئی کے مقدمہ کیلئے جوڈیشل کونسل اجلاس آگے کیا،پی ٹی آئی انتخابات کرانے آئی تو 12 دن میں انتخابات کی تاریخ دے دی، انتخابات کی تاریخ دی تو علی ظفر خوش اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز سب خوش، آپ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست لائے ہم نے فوری طور پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگ لیا، آپ لاہور ہائیکورٹ گئے وہاں لارجر بنچ بنا دیا،آپ لاہور ہائیکورٹ کو چھوڑ کر پشاور چلے گئے ریلیف مل گیا،اب اور کیا کریں؟
انٹرا پارٹی انتخابات کا ایک کیس لاہور دوسرا پشاور میں کیسے چل سکتا ہے؟ چیف جسٹس
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی عہدے کیلئے نااہل کرنے کیلئے کیس چلایا، پارٹی انتخابات اور چیئرمین پی ٹی آئی نااہلی کیسز ایک ساتھ چلانے کی درخواست کی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس لاہور ہائی کورٹ میں زیر التواء تھا تو پشاور ہائی کورٹ نے کیسے سن لیا؟ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کی حد تک لاہور ہائیکورٹ والا کیس غیرموثر ہوچکا ہے، انٹراپارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے اس لئے پٹیشن بھی وہیں کیے گئے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرسٹر گوہر سے سوال کیا کہ آپ کس حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں؟ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان سینئر وکیل ہیں انہیں بات کرنے دیں، بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم پشاور ہائی کورٹ میں فورم شاپنگ کرنے نہیں گئے تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فورم شاپنگ کی بات آپ نے کی،میں نے نہیں کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو لاہور ہائی کورٹ کیوں پسند نہیں آئی؟وکیل حامد خان نے کہا کہ پشاور کے علاوہ کہیں بھی سکیورٹی نہیں مل رہی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سکیورٹی کیلئے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا تھا، من پسند عدالتوں سے رجوع کرنے سے سسٹم خراب ہوتا ہے، وکیل حامد خان نے کہا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مقدمہ عدالت میں زیر التواء ہے،ہر طرف گرفتاریوں کی وجہ سے پشاور میں سکیورٹی ملنے پر وہاں انتخابات کرائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کا ایک کیس لاہور دوسرا پشاور میں کیسے چل سکتا ہے، کیا پشاور ہائی کورٹ میں دائرہ اختیار کا نکتہ اٹھایا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں دائرہ اختیار سمیت دو ہائی کورٹس والا نکتہ بھی اٹھایا تھا، لاہور ہائی کورٹ پی ٹی آئی کی ایک درخواست خارج کر چکی ہے، پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ زیرالتواء ہونے کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ نے درخواست خارج کی،چیف جسسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر تو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں بنے گا، کیا لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا؟وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق تو انٹراکورٹ اپیل واپس لے لی گئی تھی، وکیل حامد خان نے کہا کہ جن درخواستوں کا ذکر ہو رہا ہے وہ امیدواروں نے اپنے طور پر دائر کی تھیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ درخواست گزار عمر آفتاب صدر پی ٹی آئی شیخوپورہ ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ درخواست میں کی گئی استدعا پارٹی کی جانب سے تھی، پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں تضاد تو آ گیا ہے،کیا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی بطور جماعت فریق ہی نہیں تھی تو چیلنج کیسے کرتی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ ہو دوسری ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کا تو فوقیت کسے ملے گی؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈویژن بنچ کے فیصلے کو فوقیت دی جائے گی، عمر ایوب کو اختیار نہیں تھا کہ نیازاللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرتے،
جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو الیکشن کمیشن نے ریلیف دیدیا تھا، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا پہلے موقف تھا کہ جون 2022 والے انتخابات درست تھے،دوبارہ الیکشن پر جو عہدیدار فارغ ہوئے کیا ان کے حقوق متاثر نہیں ہوئے؟ کیا پہلے والے انتخابات بھی بلامقابلہ تھے؟ لگتا ہے پارٹی انتخابات پر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کا پرانا جھگڑا چل رہا ہے،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سال 2021 میں انتخابات کا نوٹس جاری کیا تو جواب آیا کہ کرونا کی وجہ سے نہیں کرا سکتے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تو الیکشن کمیشن نے ریلیف دیدیا تھا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی شوکاز دیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں نگران حکومت کے دبائو میں کام نہیں کر رہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے پی ٹی آئی کو ایک سال کی مہلت دی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کیساتھ رویہ اب سخت ہوگیا ہے یا پہلے سے تھا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو وقت مانگنے پر ایک سال دیا پھر کہا انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے،پہلے پی ٹی آئی سرکاری پارٹی تھی اب شاید نہیں ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہونا ضروری ہے، نیاز اللہ نیازی کا تقرر کسی بھی انتخاب کے بغیر ہوا،
الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیں تو آمریت قومی اور نجی سطح پر بھی آ جائے گی،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن لڑنے کا بنیادی حق ہر شہری اور جماعت کا ہے،الیکشن لڑنے کا بنیادی حق چھین لیں تو آمریت قومی اور نجی سطح پر بھی آ جائے گی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا دیگر جماعتوں کے آئین کو بھی اتنی باریکی سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا باقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب ہوتا ہے یا صرف پی ٹی آئی میں ہوا ہے؟ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر جواب دینگے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آج پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی پی ٹی آئی کو نوٹس کیا گیا تھا،کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ تحریک انصاف کے ساتھ امتیازی سلوک کرہے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا، ایکٹ تمام سیاسی جماعتوں پر لاگو ہوتا ہے،الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل آج بھی اسد عمر ہی ہیں، جسٹس مسرت نے کہا کہ پارٹی انتخابات کی آگاہی کیلئے قانون میں کوئی طریقہ کار ہے؟ ہر شخص کے پاس واٹس ایپ کی سہولت تو نہیں ہوتی،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ قانون صرف شفاف انٹراپارٹی انتخابات کی بات کرتا ہے،
بلے کا نشان تو پارٹی انتخابات درست ہونے کی صورت میں ہی مل سکتا ہے،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سارا جھگڑا 22 دسمبر کے انتخابات کا ہے،سب سے پہلے تو ہائیکورٹ کو ڈکلئیر کرنا تھا کہ انتخابات درست ہوئے، انتخابات درست ہوئے تو انتخابی نشان کا مسئلہ آئے گا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انتخابات درست قرار دینے کا ڈیکلریشن نہیں دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بنیادی چیز جمہوریت ہے، ملک اور سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے پی ٹی آئی وکیل حامد خان کی تعریف کردی، کہا حامد خان صاحب کل پوری تیاری کرکے آئیں اور مخدوم علی خان کو بولڈ کریں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی پٹیشن میں بھی انٹرا پارٹی انتخابات درست قرار دینے کی استدعا نہیں تھی، استدعا انتخابات سرٹیفکیٹ جاری کرنے اور انتخابی نشان کیلئے کی گئی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر صرف پارٹی انتخابات درست قرار پاتے تو باقی کسی استدعا کی ضرورت نہیں تھی،لاہور ہائی کورٹ نے کہا تھا الیکشن ایکٹ کی دفعات کالعدم قرار دیے بغیر الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار ختم نہیں ہوسکتا،کیا پی ٹی آئی کی ہائیکورٹ میں استدعائیں آئین کیخلاف نہیں تھیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میری نظر میں استدعا آئین کیخلاف تھیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اسد عمر نے پارٹی عہدہ چھوڑا تو ایسے میں پی ٹی آئی کا آئین کیا کہتا ہے؟ کیا ہنگامی طور پر کوئی سیکرٹری جنرل تعینات ہوسکتا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیکرٹری جنرل اگر الیکشن کمشنر کی نامزدگی کریں تو بھی ون مین شو نہیں ہوسکتا، کیا پشاور ہائی کورٹ نے پارٹی انتخابات پر کوئی رائے دی ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مختصر فیصلے میں پارٹی انتخابات کا ذکر نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ "بلے کا نشان تو پارٹی انتخابات درست ہونے کی صورت میں ہی مل سکتا ہے”پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دیا ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا حکم دینے کا مطلب ہے الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا،
تین سال میں فارن فنڈنگ کا فیصلہ نہیں ہوا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حیرت کا اظہار
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے اس کا کیا بنا؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حتمی فیصلہ نہیں آیا پی ٹی آئی کو شوکاز جاری کردیا گیا تھا، شوکاز پر کاروائی ابھی جاری ہے، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنگل بینچ نے تو شواہد ریکارڈ کرنے کی ہدایت دی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تین سال میں فارن فنڈنگ کا فیصلہ نہیں ہوا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فارن فنڈنگ میں بھی بے پناہ بے ضابطگی تھی،
انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا ہوگا،چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ دھرنا کیس میں الیکشن کمیشن نے قانون کو کاسمیٹک کہا تھا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ قانون پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا آپشن نہیں ہوتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نو سال سے ممنوعہ فنڈنگ کیس ہی نہیں ہوسکا، الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی چلتی رہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں الیکشن کمیشن کو کارروائی کا حکم دیا تھا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر مبنی قانون غیرموثر کر دیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئے تو پی ٹی آئی کو نتائج کا سامنا کرنا ہوگا،لاہور ہائیکورٹ میں پانچ رکنی بنچ میں آج سماعت تھی علی ظفر نے التواء مانگا،
اکبر ایس بابر سے بانی رکن ہونے،پی ٹی آئی سے اکبر ایس بابر کو نکالنے کا ثبوت طلب
وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں نوٹس کیا گیا نہ موقف سنا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میڈیا سے معلوم ہوا تھا تو پہنچ جاتے،حامد خان بھی آج خود پیش ہوئے ہیں،وکیل نے کہا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے ممبر ہیں، کاغذات نامزدگی لینے مرکزی سیکرٹریٹ گئے لیکن کچھ نہیں دیا گیا، الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی نے پریس ریلیز جاری کی تھی، ہر شہری کا حق ہے وہ کوئی بھی سیاسی جماعت جوائن کر سکتا ہے،اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں کبھی مستعفی ہوئے نہ کوئی اور جماعت جوائن کی، عدالت نے اکبر بابر سے بانی رکن ہونے کا ثبوت مانگ لیا ،پی ٹی آئی سے اکبر بابر کو نکالنے کی دستاویزات بھی طلب کر لی گئی، تفصیلی فیصلہ کب آئے گا، چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ سے معلومات لینے کی ہدایت کر دی
پی ٹی آئی کے بلے کے نشان کے حوالے سے کیس کی سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کر دی گئی،الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کرلئے،تحریک انصاف کے وکلا کل دلائل کا آغاز کریں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں، ہم بھی تھک گئے ہیں،آپ آج دلائل دیں گے یا کل؟ ہم کل صرف آپ کیلئے بیٹھیں گے، بتائیں کس وقت سماعت رکھیں،ہم انتخابات کروانا چاہتے ہیں ، آپ جو چاہیں گے ہم وہ کریں گے، فیصلہ نہیں صرف سماعت کا وقت، وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ کل ساڑھے نو بجے دلاٸل شروع کروں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چلیں ہم سماعت کل دس بجے شروع کر لینگے،
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادراہ ہے جس کا کام صاف و شفاف انتخابات کرانا ہے،
واضح رہے کہ تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان ملنے کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے،الیکشن کمیشن نے اپنی اپیل میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے،الیکشن کمیشن کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات الیکشن ایکٹ کے مطابق نہیں کرائے،
واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق 22 دسمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، بلے کا نشان بحال ہو گیا،پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور سید ارشد علی نے فیصلہ سنا دیا ۔پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کے نشان پر انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی۔پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کر لی
مجھے بلے کی آفر ہوئی میں نے انکار کر دیا
بلے کے نشان کے بعد پی ٹی آئی کا نام و نشان بھی ختم ہوجائےگا ۔
پی ٹی آئی کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسکا اپنا کیا دھرا ہے ،
عمران خان نے تبدیلی کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا
الیکشن میں میں جہاں بھی ہوں گا وہاں جیت ہماری ہی ہوگی
بانی پی ٹی آئی اب قصہ پارینہ بن چکے
عمران خان ملک میں الیکشن نہیں چاہتا ، وہ صدارتی نظام چاہتاہے