تقویٰ کی راہیں۔۔۔ !!! تحریر: جویریہ چوہدری
تقویٰ کا وہ احساس ہے کہ جب دل میں آتا ہے تو اللّٰہ تعالی کی نافرمانی،ناراضگی اور اس کی ناپسندیدہ سب چیزیں دل سے نکل جاتی ہیں۔۔۔۔
اس تقویٰ کا ساتھ زندگی میں اٹھتے ہر قدم پر ہونا ضروری ہے۔۔۔
اگر ایک مسلمان کے ساتھ تقویٰ بطورِ زادِ سفر نہ ہو تو انسان جا بجا بہک سکتا ہے۔۔۔
تقویٰ ہی ہمیں اپنے اک ایک عمل کی جوابدہی کے احساس سے مالا مال رکھتا ہے۔۔۔ !!!!
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم جہاں کہیں بھی ہو،اللّٰہ سے ڈرو،اور برائی کے پیچھے نیکی کرو،تو نیکی برائی کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔۔۔”(رواہ الترمذی۔۔۔کتاب البر والصلۃ)۔
یہ تقویٰ ہی ہمیں نیکی کی طرف لاتا اور گناہ چھڑواتا ہے۔۔۔
یعنی تقویٰ کی دولت برائیوں اور گناہ کے کاموں سے ہمارا بچاؤ ہے۔۔۔۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالی نے ہمیں متعدد مقامات پر تقویٰ کی اہمیت اور متقین میں شمار ہونے کے راستے بتائے ہیں۔۔۔۔
آیئے کچھ مقامات پر نظر ڈالتے ہیں۔۔۔۔:
"اے لوگو !
اپنے رب کی عبادت کرو،جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔۔۔تاکہ تم بچ جاؤ”
(البقرۃ:21)۔
یعنی اللّٰہ تعالی کی ناراضگی اور غصہ سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ اللّٰہ تعالی کی وحدانیت کو صحیح معنوں میں سمجھ جاؤ۔۔۔۔
صرف اسی کی عبادت کرو اور جان بوجھ کر شرک کا ارتکاب نہ کرو۔۔۔
اگر ایسا کرو گے تو یقیناً تمہارا انجام بچاؤ ہو گا۔۔۔
"نیکی یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو۔۔۔۔بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ جو اللہ پر اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے۔۔۔اور مال دے اس کی محبت کے باوجود قرابت والوں،
اور یتیموں۔۔۔
اور مسکینوں اور مسافر اور سوال کرنے والوں کو۔۔۔
اور گردنیں چھڑانے میں۔۔۔۔اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے
اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور خصوصاً تنگدستی اور تکلیف میں صبر کرنے والے ہیں۔۔۔۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے سچ کہا اور یہی بچنے والے ہیں۔۔۔۔”
(البقرۃ:177)۔
یعنی مشرق یا مغرب کی طرف منہ کر لینا بذات خود نیکی نہیں بلکہ یہ تو مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے۔۔۔اصل نیکی ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ تعالی نے بیان فرمائے ہیں اور ان اعمال و اخلاق کو اپنانا جن کی تاکید کی گئی ہے تو ان باتوں کا انجام حسن تقویٰ ہے۔۔۔۔
بچاؤ ہے۔۔۔۔کامیابی ہے۔۔۔۔کیونکہ کامیابی کا دارو مدار تقویٰ کی کیفیت پر ہے۔۔۔۔اخلاص کی نوعیت پر ہے۔۔۔۔ !!!!!
"اے ایمان والو!
تم پرروزے رکھنے فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔۔۔۔تاکہ تم بچ جاؤ”۔
(البقرۃ:183)
یہ عبادت تقویٰ کے حصول کا بڑا مقصد ہے۔۔۔۔کیونکہ نفس کی طہارت کے لیئے بہت بہترین اور اہم ہے۔۔۔۔
اخلاق اور کردار کو سنوارنے میں روزے کا بنیادی کردار ہے۔۔۔۔
روحانی اور جسمانی بالیدگی کا باعث ہے۔۔۔۔
اللّٰہ کی رضا کے لیئے حلائل سے بھی رکے رہنا۔۔۔۔نفسانی خواہشات پر قابو پانا۔۔۔۔۔
تو یہ چیزیں تقویٰ کے حصول کا سبب بن جاتی ہیں۔۔۔۔ !!!!!!
"تمہارے لیئے بدلہ لینے میں ایک طرح کی زندگی ہے۔۔۔اے عقلمندو !
تاکہ تم بچ جاؤ۔”
(البقرۃ:179)۔
یعنی قصاص میں تمہاری زندگی کا راز ہے۔۔۔۔۔جرائم کی روک تھام کا ذریعہ ہے۔۔۔۔
جب قاتل کو یہ خوف ہو گا کہ وہ بھی قصاص میں قتل کر دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔تو معاشرہ خونریزی اور بد امنی سے بچ جائے گا۔۔۔۔
کیونکہ قانون کا نفاذ ہی جرائم کی شرح کم اور امن و سکون کی وجہ ہوتا ہے۔۔۔۔ !!!
"پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو۔۔۔۔جیسے اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے۔۔۔۔”
(البقرۃ:194)۔
یعنی کفار حرمتوں کو ملحوظ رکھیں تو تم بھی رکھو۔۔۔۔ورنہ انہیں حرمتوں کو پامال کرنے کی سزا بدلہ ہے۔۔۔۔ !!!!!
"اور معاف کر دو تو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو”۔۔۔۔
(البقرۃ:237)۔
اگرچہ یہاں حق مہر کے سلسلے میں فضل و احسان کی تاکید کی گئی ہے مگر ہر معاملے میں آپس میں فضل و احسان کو اختیار کرنے کی کوشش کرنا۔۔۔۔تعلیم اسلام ہے۔۔۔۔ !!!!!
"کیوں نہیں!
جو شخص اپنا عہد پورا کرے اور ڈرے تو یقیناً اللہ ڈرنے والوں سے محبت رکھتا ہے”۔
(آل عمران:76)۔
یہاں اقرار سے مراد وہ عہد ہے جو ہر نبی کی امتوں سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا اور ڈرنے سے مراد اللہ تعالی کے محارم سے بچنا اور ان باتوں پر عمل کرنا جو پیارے نبی حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں۔۔۔
تو ایسے لوگوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔۔۔۔ !!!!!
"اور جو بھی نیکی کریں،تو ان کی بے قدری ہر گز نہیں کی جائے گی اور اللہ متقی لوگوں کو خوب جاننے والا ہے”
(آل عمران:115)۔