سرائیکی خطے کی رنگین چنی، دلہنوں کا دلکش پہناوا
تحقیق و تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
خلاصہ
اس قسط میں ہینڈی کرافٹ مقامی چنی کی معدومیت کے عوامل اور اس کے زوال پر بات کی گئی ہے۔جدید فیشن،معاشی مشکلات اور مقامی مارکیٹ کی کمی کی وجہ سے چنی کا استعمال کم ہو رہا ہے۔اس کا معقول معاوضہ نہ ملنا اور نوجوان نسل کی عدم دلچسپی بھی اس کی کمیابی کا سبب بن رہی ہے۔تاہم،سرائیکی ثقافت کے اس اہم جزو کو بچانے اور اس کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ یہ قیمتی دستکاری زندہ رہ سکے۔

تیسری آخری قسط
چنی کا زوال اور اس کا مستقبل
چولستان روہی میں چنی کو خاص مقام حاصل ہے۔شادی بیاہ میں جہیز اس کے بغیر نامکمل تصور کیا جاتا ہے۔امیر مائی بچپن سے ہی خوبصورت چنیاں بناتی آئی ہیں۔ جو اب ہر علاقے کی خواتین خاص مواقع پر خریدتی اور اوڑھتی ہیں۔امیر مائی اور خالہ سلمی جیسی بے شمار غریب خوددار ہنر مند خواتین نے چھوٹی عمر میں اپنی نانی اور والدہ سے اس فن کو سیکھا اور پھر اپنی اولادوں کو سکھا رہیں ہیں۔دیرہ بکھا امیر مائی کا ہنر مند خاندان صدیوں سے اس کلچرل آرٹ سے منسلک ہے اور اس فیملی کا ذریعہ معاش بھی ہے۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرائیکی خطے کی رنگین چنی، دلہنوں کا دلکش پہناوا
دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرائیکی خطے کی رنگین چنی، دلہنوں کا دلکش پہناوا
اس قبیلے نے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے عباس نگر کو یہ فن سکھایا ہے۔اور اب تقریبا پورا گاؤں اس کام سے منسلک ہوچکا ہے ۔یہ کام مشکل اور محنت طلب ہے۔سب سے پہلے کپڑا لیا جات ہے،اگر پورا سوٹ بنانا ہو تو چھ سے آٹھ میٹر تک کپڑا لگتا ہے۔اس پر سب سے پہلے پکے ٹھپے سے ڈیزائن بنایا جاتا ہے۔ پھر سوٹ یا الگ چنی پر کون سا ڈیزائن یا رنگ جچےگا،اس کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ رنگوں میں نفاست،پائیداری اور پکے رنگ ہوں۔

سرائیکی رنگ بھری بہاولپوری چنی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قیمتی ہنر کی صحیح معنوں میں قدر و قیمت نہیں ہورہی۔اتنی محنت مشقت کے باوجود اس کا معاوضہ اس طرح نہیں ملتا،جتنا ہونا چاہیے۔اس مقامی دستکاری کا سب سے زیادہ فائدہ اس مقامی صنعت سے وابستہ کاروباری منافع خور لوگ اٹھاتے ہیں۔

ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ سرائیکی وسیب اور دلہن کے لئے بنائی جانے والی چنی کی معدومیت کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔سرائیکی دھرتی کا چنی کا کام ایک خوبصورت فنون لطیفہ کا شاہکار ہے۔جو ہینڈی کرافٹ کے زمرے میں آتا ہے،اس میں ثقافتی حسین رنگ
،علاقائی پہچان،اقتصادی اور سماجی عوامل شامل ہیں۔جدید مغربی فیشن اور ٹیکنالوجی نے سادہ نفیس خوبصورت لباسوں اور ثقافتوں پر اثر ڈالا ہے،جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کے درمیان مغربی طرز زندگی اور فیشن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے روایتی کلچرل سرائیکی لباس کے حسن،چنی کے پہناوے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

عہدِ جدید کی اقتصادی مشکلات بھی غریب مقامی صنعت کے زوال کا سبب بن رہی ہیں۔چنی بنانے کا عمل محنت طلب اور مہنگا ہے،جس میں کئی قسم کی کڑھائی،رنگائی اور دیگر فنون شامل ہیں۔ مہنگائی اور معاشی مشکلات نے اب روایتی فنون کو زندہ رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔سرائیکی علاقوں میں چنی تیار کرنے والے ہنر مند افراد میں کمی واقع ہو رہی ہے،کیونکہ نئی نسل اس ہنر کو سیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتی،جس کی وجہ سے یہ فن اور صنعت بتدریج معدومیت کا سامنا کررہی ہے۔

مقامی کاروباری حضرات کی مارکیٹ میں غفلت اور سستی بھی اس شاندار تاریخی ہینڈی کرافٹ کو شدید خطرات میں ڈال دیا ہے۔سرائیکی چنئی والے عروسی لباس کی مقامی مارکیٹ میں کمی نے بھی اس کے استعمال کو متاثر کیا ہے،سب سے اہم مسئلہ حکومتی سطح پر سرپرستی کا نہ ہونا،ایکسپورٹ امپورٹ سہولیات کی عدم سہولیات،معاشی مالی بحران اور بےروزگاری ہے۔جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ مہنگی چنئی کی بجائے دیگر سستے اور آسانی سے دستیاب کپڑے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔عہد جدید میں نئی ثقافتی سرگرمیوں،ثقافتی تبدیلیوں کی دوڑ، گلوبلائزیشن اور مختلف ثقافتوں کے اثرات نے بھی مقامی ریت روایات اور رسم و رواج کو متاثر کیا ہے،جس کی وجہ سے سرائیکی چنی جیسے روایتی لباس کا استعمال کم ہوا ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر سرائیکی وسیب میں چنی کی ہینڈی کرافٹ معدومیت کے سفر پر گامزن ہے۔اور یہ ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔جس کا فوری حل ضروری ہے۔اس کے لئے حکومتی اداروں، ثقافتی تنظیموں اور مقامی کمیونٹی کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہوگا تاکہ رنگوں کی امن پسند دنیا ہمیشہ آباد و شاد رہے۔ میرے نزدیک رنگ ہی خوبصورت زندگی کی گواہی ہیں۔سرائیکی حسین رنگوں کی روحانی دھرتی خوبصورت امن پسند رنگوں کا قصہ گاتی رہے اور ہم آپس میں امن ومحبت،اتحاد اور انسانیت کے رنگ ایک دوسرے کے ساتھ سانجھ کرتے رہیں۔

باغوں میں رنگ برنگے پھول،خوبصورت چرند پرند کی رنگین پیاری آوازیں،انسانوں کے مختلف رنگ،پیارے دلکش چہرے،الگ روایتی لباس،متنوع ثقافتوں میں روحانی مادری زبانوں کے میٹھےسریلے انداز اور حسین رنگ برنگی وادیوں کی تخلیق،ندیوں،دریاوں،سمندر،اور آسمان سے بارش کے رنگ برنگے خوبصورت شبنم کے پھول کی مانند چکمتے قطرے کائنات کے حسن بھرے رنگین رازوں کی گواہی ہیں۔دنیا کو رنگ دو۔سرائیکی وسیب کے سنگ دو۔










