گرفتاری کے بعد بیماری سیاسی رہنماؤں کا معمول،خورشید شاہ بھی ہسپتال پہنچ گئے

گرفتاری کے بعد بیماری سیاسی رہنماؤں کا معمول، خورشید شاہ بھی گرفتاری کے بعد بیمار ہو گئے

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنما رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ کی طبیعت ناساز ہو گئی جس کے بعد انہیں شعبہ امراض قلب لے جایا گیا اور وہاں علاج کی غرض سے داخل کروا دیا گیا. انہیں اسلام آباد کے مقامی ہسپتال پولی کلینک میں طبی معائنے کے لیے نیب حکام لے کر گئے جہاں خورشید شاہ کے مختلف میڈیکل ٹیسٹ کیے گئے، خورشید شاہ کے سینے اور پیٹ میں تکلیف تھی.

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سیاسی زعماء کو جب جیلوں میں ڈالا جاتا ہے تو انہیں بیماریاں لگ جاتی ہیں، سابق وزیراعظم نواز شریف جیل میں العزیزیہ ریفرنس کیس میں سات برس کی سزا کوٹ لکھپت جیل میں کاٹ رہے ہیں، نواز شریف کی جیل میں طبیعت ناساز ہے، عدالت نے انہیں طبی بنیادوں پر رہا کیا تھا لیکن بعد ازاں ضمانت میں توسیع نہیں کی تھی، نواز شریف کی صحت کو لے کر مریم نواز نے بھی پریس کانفرنس کی تھی ،ن لیگ کے رہنما اب بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو جیل سے نکال کر ہسپتال منتقل کیا جائے، بلکہ نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نواز شریف کو جیل میں ڈاکٹر مہیا نہ کر کے قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے.

سابق صدر آصف زرداری بھی اڈیالہ جیل میں ہیں انہیں نیب نے جعلی اکاؤنٹ کیس میں گرفتار کیا اور اب وہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، آصف زرداری کی بھی جیل میں طبیعت خراب ہونے پر میڈیکل بورڈ کے مشورہ پر پمز میں منتقل کیا گیا تھا لیکن ایک روز پمز میں ان کے ٹیسٹ کروانے کے بعد دوبارہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے، پمزکے ترجمان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی طبیعت بہتر ہے انہیں مزید ہسپتال میں رہنے کی ضرورت نہیں،ڈاکٹرز کے مطابق آصف زرداری کے تمام ٹیسٹ کلیئر ہیں اور انہیں فزیو تھراپسٹ کی ضرورت ہے

سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو نیب نے طلب کیا تو وہ بھی نیب میں گرفتاری کے ڈر کی وجہ سے پیش نہ ہوئے اور کمر درد کا بہانہ کر دیا، شہباز شریف کمر درد کی وجہ سے احتساب عدالت میں بھی پیش نہیں ہوئے.

پیپلز پارٹی کے ہی رہنما ،سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن جب 5 ارب سے زائد کے کرپشن کیس میں جب جیل میں گئے تو ان کی طبیعت ٹھیک نہ رہی اور انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا،

جعلی اکاونٹس کیس میں گرفتار انور مجید عدالت میں بیماری کی وجہ سے پیش نہ ہوئے، عدالت کو بتایا گیا کہ انور مجید کے دل کا والو بند ہے اور انہیں ڈی پولر ڈس آرڈر کی بیماری ہے.رپورٹ پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ انور مجید کو کوئی ایسی بیماری نہیں جس کے باعث وہ عدالت میں پیش نہ ہوسکیں، یہ ایسی بیماریاں ہیں جو پاکستان میں ہر چوتھے آدمی کو ہوتی ہیں.

میں ملنے گئی تو زرداری وہیل چیئر سے اٹھے، پولیس نے کہا دفعہ ہو جاؤ، آصفہ بھٹو

آصف زرداری کا طبی معائنہ، کونسی بیماری اور ڈاکٹر نے کیا تجویز کیاِ؟

دوسری جانب سیاسی رہنماؤں کے مقابلے میں مذہبی رہنماوں کو بھی گرفتار کر کے جیل میں رکھا گیا ہے لیکن کبھی بھی کسی مذہبی رہنما کی جانب سے بیماری یا جیل سے باہر جانے کی درخواست نہیں آئی.

جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے درج کر کے انہیں گرفتار کیا گیا، حافظ محمد سعید کو لاہور کی ایک جیل میں رکھا گیا ہے، حافظ محمد سعید دو ماہ سے جیل میں ہیں ان کی عمر بھی نواز شریف، زرداری،و دیگر سیاسی زعماؤں سے زیادہ ہے لیکن ان کی جانب سے کبھی بھی بیماری کی درخواست یا جیل سے باہر جانے کی استدعا نہیں آئی، حافظ محمد سعید کو پہلی بار گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ ماضی میں بھی انہیں بھارت اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا رہا، حافظ محمد سعید ایک سال کے عرصے تک جیل میں رہے لیکن کبھی بھی ان کی جانب سے بیماری کی بات سامنے نہیں آئی،

جیل میں نواز شریف کو قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے، شہباز شریف

جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمان مکی بھی جیل میں ہیں انہیں حافظ محمد سعید کی گرفتاری سے قبل ہی گرفتار کر لیا تھا، وہ دل کے مریض بھی ہیں لیکن تین سے چار ماہ ان کو جیل میں ہو گئے ہیں ان کی جانب سے کبھی بیماری کا نہیں سنا گیا کہ انہوں نے کسی کو کہا ہو کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں یا میں ہسپتال جانا چاہتا ہوں. یا میرا طبی معائنہ کروایا جائے.

باغی کی رپورٹ کے مطابق جیلوں میں گرفتار مذہبی رہنماؤں کے حوالہ سے جب جیلر سے پوچھا جاتا ہے تو انکا کہنا ہوتا ہے کہ وہ عبادت کرتے رہتے ہیں، اس لئے اطمینان سے رہتے ہیں، اور اگر انہیں کوئی بیماری ہو بھی سہی تو وہ کسی کو نہیں بتاتے بلکہ جیل میں بھی رب کا شکر ادا کرتے ہیں اور صبر کرتے ہیں.

جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنماؤں مولانا امیر حمزہ ، پروفیسر ظفر اقبال سمیت دیگر قائدین بھی جیلوں میں قید رہے لیکن انہوں نے بھی کبھی بیماری کا بہانہ بنا کر جیل سے نکلنے کا نہیں کہا

Comments are closed.