امریکا کے ڈپارٹمنٹ اف کامرس نے چین کے صوبے زن جیانگ سے تعلق رکھنے والی 28 کمپنیوں پر پابندی عائد کردی اور اس پابندی کی بنیادی وجہ امریکا و چین کے خراب معاشی تعلقات نہیں بلکہ چین کی طرف سے یوگوئر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو بتایا جا رہا ہے،
امریکا کے ڈپارٹمنٹ آف کامرس کے سیکرٹری ولبر راس نے کہا امریکا چینی مسلم اقلیت پر ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کسی صورت حمایت نہیں کرتا ، امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کی جانے والی چینی کمپنیوں میں ویڈیو کیمرے بنانے والی کمپنی ہک ویژن ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس پراڈکٹس بنانے والی کمپنی میگوی ٹیکنالوجی اور سینس ٹائم جیسی بڑی کمپنیاں بھی شامل ہیں،
معیشیت کے اعتبار سے دنیا کے دو بڑے ممالک پچھلے کچھ عرصے تجارتی تعلقات کی خرابی کا سامنا کر رہے ہیں، اور اس کش مکش کے عالم میں دونوں ممالک ایک دوسرے کی پراڈکٹس پر بھاری ٹیرف بھی لگا چکے ہیں، کچھ دن پہلے وائٹ ہاوس نے چین کیساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے اور مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے حامی بھری ہے،
امریکا کی طرف سے چینی مسلمانوں کے بارے بیانات پچھلے کافی عرصے سے مسلسل آ رہے ہیں ، جن میں امریکا چینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھاتا رہا ہے، امریکا کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق چین نے صوبی زن جیانگ میں کئی قید خانے تعمیر کیے ہوئے ہیں ، جن میں کم و بیش ایک لاکھ مسلمانوں کو قید کیا ہوا ہے اور ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ان کو مساجد میں جانے اور قرآن پڑھنے سے روکا جا رہا ہے ، چینی حکام کیمطابق انہوں نے قید خانے نہیں بلکہ مسلمان بچوں کے سکول قائم کیے ہوئے ہیں ،
دوسری طرف چینی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ امریکی ڈپارٹمنٹ آف کامرس کی طرف سے پاپبندیاں اور الزامات صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے اور چینی معیشیت کو ڈی ریل کرنے کیلئے کیے جا رہے ہیں، میگوی کمپنی کے ایک نمائندہ نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی کمپنی کی بنائی ہوئی مصنوعات انسانی زندگیوں میں آسانی کا باعث بن رہی ہیں اور ایسے الزامات سراسر بے بنیاد ہیں ،
اور جہاں تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانا مقصود ہے تو کیا امریکہ کو کشمیر میں ہونے والے مظالم نظر نہیں آ رہے، اور اگر امریکہ کشمیر کی صورتحال سے باخبر ہے تو چین کی طرح بھارت پر پابندیاں کیوں نہیں لگاتا ، بہر حال امریکہ کے اس اقدام کے پیچھے بلاشبہ سیاسی مقصد پوشیدہ ہے