آج صحافت کو ہر ایک کرپٹ چور ،رشوت خور نشانہ بنانے میں لگا ہوا ہے،رؤف وراثی

رؤف وراثی نے اپنی تحریر میں کہا کہ صحافت کو لنگڑی لولی کرکے چلانا ہمیں کسی طور قبول نہیں ہر ظالم کے خلاف اور ہر مظلوم کی آواز بنتے رہیں گےریاست کا چوتھا ستون ہر کرمنل اور انکے سرپرستوں کے نشانے پر آخر کیوں ؟جس طرح پاکستان میں صحافیوں کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں شاید اس پر لکھنا بھی بہت سے لوگوں کو ناپسند ہو سچ لکھنا سچ بولنا جرائم کو بےنقاب کرنا اگر جرم ہے تو ہم یہ جرم بار بار کرتے رہیں گے۔صحافی جان پر کھیل کر حالات سے عوام کو باخبر رکھتا ہے نہ کوئی سیکورٹی نہ جان ومال کے تحفظ کی ضمانت مگر بدلے میں جھوٹی ایف آئی آر سنگین نتائج کی دھمکیوں سے نوازا جاتا ہے
لاقانونیت کے بڑھتے ہوئے سلسلے کو نہ روکا گیا تو انصاف کے تقاضے پورے کرنا ایک خواب رہ جائے گا ۔صوبائی اور وفاقی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے آج صحافت کو ہر ایک کرپٹ چور ،رشوت خور نشانہ بنانے میں لگا ہوا ہے۔منشیات کی نشاندہی کریں تو منشیات فروش دشمن کیا منشیات کو لانے والے اداروں سے زیادہ طاقتور ہیں سرپرستی صحافی تو نہیں کرتے ۔قبضہ مافیا کے خلاف لکھیں تو قبضہ مافیا اور انکے وہ سرکاری سرپرست جو رشوت لیکر انکو کھلی چھوٹ دیتے ہیں وہ دشمنی کون کرا رہا ہے یہ قصے سب جانتے ہیں مگر سچ لکھنے سچ بولنے والوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے کیوں صحافیوں کی قربانیاں کسی بھی سولجر سے کم نہیں نہ جان کی گارنٹی نہ بچوں کے بہتر مستقبل کی گارنٹی نہ کسی قانون شکن سے تحفظ آخر صحافیوں کو سچ لکھنے کی اتنی سزا کیوں دی جا رہی ہے ۔صحافت کو لنگڑی لولی بنانے کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں یاد رکھیں اسکے اثرات بہت برے مرتب ہونگے اور انصاف کا صرف نام رہ جائے گا اور غریب کی آواز سب جائے گی۔جہاں سچ لکھنے سچ بولنے پر پابندی لگا دی جائے تو ظالم کو ظلم کرنے سے کوئی۔ نہیں روک سکتا یہ صحافی ہی ہیں جو اپنے کیمرے قلم زبان سے ان مسائل کی طرف حکام بالا کی توجہ مبذول کراتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے جہاں ظلم ہوتا ہے وہاں صحافی سب سے پہلے جان ہتھیلی پر رکھ کر پہنچ جاتا ہے اور مظلوم کی آواز بنتا ہے آج جس طرح صحافت کا گلہ دبایا جارہا ہے ہر پل صحافیوں کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بری خبر سننے کو ملتی ہے کبھی حملے کیے جاتے ہیں کبھی سچ لکھنے سچ بولنے اور وہ حقیقی حقائق دکھانے کی پاداش میں میں ہمارے کئی صحافی بھائیوں کو ہم سے جدا کر دیا گیااس کی آج تک سرکاری سطح پر کسی بھی ادارے اور صوبائی وفاقی گورنمنٹ نے مدد تک نہیں کی آخر کیوں ؟؟کیاسچ لکھنا سچ دکھانا اتنا بڑا جرم ہے؟ تو یاد رکھیں ہم یہ جرم بار بار کرتے رہیں گے کیونکہ قلم ہمارے پاس ایک امانت ہے اور ہم امانت میں خیانت نہیں کریں گے آج جسطرح ایک سوچے سمجھے منصوبہ بندی سے ہمارہ گلہ دبایا جارہا ہے۔ اسکے منفی اثرات پورے ملک میں پھیلیں گے اور کوئی پھر سچ لکھنے یا بولنے کی ہمت اس لیے نہیں کرے گا کیونکہ اسکی اپنی جان کو لاقانونیت کا راج قائم کرنے والوں سے خطرہ ہو سکتا ہے اگر حکومت وقت نے صحافیوں کے حقوق اور ان پر ہونے والی زیادتیوں پر اسی طرح مسلسل خاموشی اختیار کیے رکھی تو یاد رکھیں کہ کفر پر معاشرے قائم رہ سکتے ہیں مگر ظلم پر نہیں۔ پاکستان بھر میں صحافیوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے کہیں جھوٹے کیس تو کہیں جان سے مارنا تو کہیں حراساں کرنا آخر کب تک ایسا چلے گا کیونکہ اب ظلم پر خاموش رہنا بھی ایک ظلم ہے۔ اب ہر اہل قلم کو اس بارے میں لکھنا بولنا اور سوچنا ہوگا اگر اب بھی صحافی تنظیموں اور پاکستان بھر میں بنے پریس کلبوں کے نمائندوں کو خیال نہ آیا تو صحافیوں پر لاقانونیت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور اسکے مضر اثرات معاشرے پر پڑتے رہیں گے ظالم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائے گا اور مظلوم کو ظلم سے کوئی نہیں بچا پائے گا یادرکھیں پھر سب کو اپنی اپنی باری کا انتظار کرنا ہوگا کیونکہ ظالم کا کوئی قبلہ، کوئی قبیلہ اور نہ کوئی بھروسہ ہوتا ہے۔آِئیں متحد ہوکر ہر ظلم کے خلاف لکھیں اور پاکستان بھر کے صحافیوں کی آواز بن کر ظالموں کو للکاریں تاکہ معاشرے میں ظلم کا خاتمہ ہو سکے .

Comments are closed.